“السلام علیکم یا رجال الغیب السلام علیکم یا ایھا الارواح المقدسة اعيونى بقوة أنظرونى بنظرة أجيبونى بدعوة يا نقباء يا نجباء يا رقباء يا بدلاء يا اوتاد الارض اوتاد اربعة يا امامان يا قطب يا فرد يا امناء أغيثونى بغوثة و انظرونى بنظرة وارحمونى و حصلو مرادى و مقصودى وقومو على’ قضاء حوالحى عند نبينا محمد صلى الله عليه وسلم و سلمكم الله تعالى’ فى الدنيا و الآ خرة”
بات کی تمہید ہم “عملیات” سے باندھتے ہیں.. عملیات میں رجال الغیب وہ غیبی مخلوق ہے جو آپ کے عمل میں , وظیفہ میں آپ کی مدد و استعانت کرتی ہے.. کسی ورد, وظیفہ ,عمل, تعویذ لکھتے وقت انہیں اپنی پشت پہ رکھا جاتا ہے..اگر یہ سامنے ہوں تو آپ کا وظیفہ یا عمل باطل ہو سکتا ہے اس کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں , رجال الغیب اگر آپ کی پشت پہ ہیں تو عمل کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں. اس وجہ سے کئی اساتذہ تلقین کرتے ہیں کہ دوران عمل یا دوران زکوات انہیں پشت پہ رکھا جائے. موکلات کی اقسام کو اگر سمجھا جائے تو علوی موکلات الیاۓ کرم کے ساتھ خود بخود منسلک ہوتے ہیں. علوی موکلات کے سامنے سفلی موکلات نہیں ٹکتے.
رجال الغیب کی سمت چاند کی تاریخوں کے حساب سے ہے. روزانہ ان کا رخ بدلتا ہے
رجال الغیب پہ مفصل بات کرنے سے پہلے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی(1746تا 1823) رحمت اللہ علیہ سے منسوب ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا تاکہ رجال الغیب کے کردار کا اجمالی سا خاکہ ذہن میں آ جائے..
شاہ عبدالعزیز دہلوی بلند پایہ عالم دین, مفسر قرآن, معلم علوم حدیث تھے., میں نے غالبا” کسی اور پوسٹ میں بھی ان کا ایک واقعہ شئیر کیا تھا, جو سر آئین سٹائین کے نظریہ اضافیت کے عین مصداق تھا ( سپیس اینڈ ٹائم کے حوالے سے). ان کے دور میں برصغیر پوک و ہند میں سیاسی ابتری اور معاشی نا ہمواریوں کا زور تھا. مغلیہ اقتدار زوال پذیر تھا.. اخلاقی گروٹ کا یہ عالم تھا کہ جو جس کا دل چاہتا کرتا, نہ گناہ کا ڈر نہ خوف خدا..عنان حکومت بدقماش عورتوں اور خوشامدیوں کے ہاتھ تھی, مرہٹوں نے تباہی مچا رکھی تھی تو دوسری طرف سکھوں نے خون کا بازار گرم کر رکھا تھا.. چوریاں, ڈاکے , قتل و غارت عام تھے..
شاہ عبدالعزیز کے احباب میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو ان حالات پہ بہت زیادہ مضطرب ہوتا تھا, ہر روز حضرت کے پاس کوئی نہ کوئی نیا واقعہ لے کر آتا اور بڑے درد سے بیان کرتا.. ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتا کہ “حضور ان دنوں دہلی کا روحانی گورنر یا قطب کون ہے, جو اس طرح سویا ہوا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں”
شاہ عبدالعزیز اسے سمجھاتے کہ یہ اولیاۓ مستورین/رجال الغیب اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتے,مگر مشیت ایزدی کے تحت اقدام کرتے ہیں..
وہ بے تاب ہو کر کہتا ” مجھے بتائیں کون ہے ان دنون دہلی کا قطب,روحانی گورنر, میں اسے ملنا چاہتا ہوں, اسے ساری صورت حال سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں”
آپ نے ایک دن فرمایا کہ صاحب.. ان حضرات کے معاملات بہت عجیب ہیں, ہمیں دخل نہیں دینا چاہئے.تاہم تمہین دہلی کے “روحانی گورنر تک پہنچانے میں تمہاری مدد کرتا ہوں, تم صرف ان کی زیارت کرو گے ,خاموش رہو گے,کسی قسم کے دخل در معقولات کے مرتکب نہیں ہو گے..بس
ایسا کرو دہلی سے باہر سبحان پور کو ایک سڑک جاتی ہے, دس میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے, وہاں تجارتی قافلے رکتے ہیں لوگ خرید وفروخت بھی کرتے ہین, وہاں سڑک کے کنارے ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے ایک ضعیف شخص ملے گا جو بڑے خوبصورت خربوزے بیچ رہا ہو گا.. وہی ان دنوں ” روحانی گورنر” ہے.
وہ شخص دہلی سے نکلا اور دوسرے دن ہی “روحانی گورنر” عرف خربوزے بیچنے والے کے پاس جو پہنچا.. خربوزے کا نرخ پوچھا تو جواب ملا صرف “ایک اکنی” , ایک اکنی دی ,خربوزہ اٹھا کر چھری سے چیرا ,چکھ کر کہنے لگا “بابا! یہ خربوزہ تو پھیکا ہے” جواب ملا اور لے لو,اسے پرے رکھ دو.. دوسرا اٹھایا “بابا! اس سے تو بدبو آتی ہے” فرمایا اسے بھی پرے رکھ دو اور لے لو.. تیسرا اٹھایا ..”بابا! اس میں تو کیڑے ہیں” جواب ملا ادھر رکھ دو اور لے لو..
اسی طرح کرتے کرتے اس شخص نے بابے کے سارے خربوزے یکے بعد دیگرے خراب کر دیئے.
پھر کہنے لگا “بابا! تم نے مجھے لوٹ لیا ہے”
بابے نے کہا “بیٹا! اپنی اکنی واپس لے لو.. شاید میں آج اچھے خربوزے نہیں لا سکا”
وہ شخص اکنی جیب میں ڈالے سارے خربوزے برباد کر کے رات کو شاہ عبدالعزیز دہلوی کے پاس آ گیا کہنے لگا ” جب دہلی کا قطب اور روحانی گورنر ایسا ہے تو پھر یہ افراتفری کیوں نہ ہو”.
چند سال بعد احمد شاہ ابدالی افغانستان سے پنجاب کے سکھون کو روندتا ہوا دہلی پر حملہ آور ہوا.مرہٹوں کو نتھ ڈالی, قتل عام کے ساتھ ساتھ اس نے نظم ونسق کے معاملے کو ٹھیک کیا. جو چوری کرتا اس ک ہاتھ کاٹ دیتا, قاتل کو پھانسی پہ لٹکا دیتا.. چور اچکے یا تو مارے گئے یا فرار ہو گئے.معاملات درست ہو گئے . دہلی اور مضافات میں امن قائم ہو گیا..
وہی شخص پھر شاہ عبدالعزیز دہلوی کے پاس , پوچھنے لگا ان دنوں تو امن و امان ہے, ان دنون دہلی کا قطب کون ہے؟
آپ نے فرمایا ” جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر ایک بوڑھا مشکیزہ اٹھائے نماز جمعہ کے بعد نمازیوں کو پانی پلاتا ملے گا, وہی ان دنون دہلی کا روحانی گورنر/قطب ہے”
وہ بندہ جامعع مسجد جا پہنچا. اس نے دیکھا ایک بوڑھا ہانپتا کانپتا سیڑھیوں چڑھ رہا ہے, لوگ دوڑ دوڑ کر اس سے پانی پی رہے ہین. یہ شخص بھی آگے بڑھا , ایک پیالہ لیا , پانی مانگ پینے لگا.. آدھا پانی پیا, آدھا زمین پہ گرا دیا.
بوڑھے کو یہ بات بڑی ناگوار گزری ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا ” تم نے یہ پانی کیوں ضائع کردیا, کسی اور مسلمان کے کام آ سکتا تھا!” اس بندے بھی ہوش ٹھکانے نہ آئے تھے کہ اس بوڑھے نے کہا ” دفع ہو جاؤ! اور اس مولوی عبدالعزیز کو کہنا تیرے جیسے بے ہودہ لوگوں کو ہمارے پاس نہ بھیجا کرے”
یہ بندہ پھر شاہ عبدالعزیز دہلوی کے پاد آیا, سارا ماجرا سنا کر کہنے لگا “سرکار!! واقعی دہلی کا گورنر بڑا سخت ہے””
یہ بندگانِ خدا “رجال اللہ” ایک مخصوص مقام پہ فائز ہوتے ہیں. قرآن پاک نے رجال اللہ (مردانِ خدا) کا ان الفاظ میں تعارف کروایا ہے
“رجال الله تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله”
(وہ مردان حق جنہیں تجارت اور خرید و فروخت یاد خداوندی سے غافل نہیں کرتی)
ان کا وجودِ مسعود حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لیکر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک رہا ہے اور عہد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبارکہ سے لیکر ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ علیہ السلام تک رہے گا. کائنات کے قیام اور انتظام و انصرام کا دارومدار انہی مردانِ خدا پر ہے. عبد و معبود کے درمیاں رشتہ انہیں کی تعلیمات و ہدایت پر قائم ہے.
امور تکوینی کے انصرام اور تصرفات کونیہ کی قدرت سے مشرف ہوتے ہیں. انہی کی برکات سے بارشیں برستی ہیں, نباتات پر سرسبزی آتی ہے. کائنات ارضی پر مختلف قسم کے حیوانات کی زندگی انہی کی نگاہ کرم کی مرہون منت ہے.
شہری آبادیاں, تغلب احوال وتخول اقبال, سلاطین کا عروج و زوال, انقلابات زمانہ, اغنیاء و مساکین کے حالات میں رد و بدل , صغائر و کبائر کی ترقی و تنزلی, جنود و عساکر کا اجتماع و انتشار, بلاؤں اور وباؤں کا رفع و دفع ہونا…غرضیکہ اللہ تعالی کی عطا کردہ کروڑوں طاقتوں کا مظاہرہ انہیں کے اختیار میں ہے.
جیسے آفتاب عالم خداوند تعالی کے عطا کردہ نور سے تمام کائنات کو روشن رکھتا ہے اسی طرح اللہ تعالی اپنے غیب الغیب سے ایک نور ان حضرات پہ وارد کرتا ہے جس وہ بنی آدم کے نظام کی اصلاح کرتے رہتے ہیں.
ان حضرات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے.
1.اولیائے ظاہرین
اور
2.اولیائے مستورین(چھپے ہوئے)
1۔اولیاۓ ظاہرین
ان کے سپرد مخلوق خدا کی ہدایت و اصلاح ہوتی ہے. یہ لوگ مخلوق خدا کی ہدایت اور اصلاح کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں اور اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوتے. یہ دشوار ترین حالات کے سامنے بھی اپنے کام پر مامور رہتے ہیں.
2 . اولیائے مستورین
ان کے سپرد تکوینی امور کی انجام دہی, انتظام و انصروم ہوتا ہے. یہ اغیار کی نگاہوں (ظہرین کی نگاہوں) سے پوشیدہ (مستور) ہوتے ہیں, مگر یہ بھی صاحبِ خدمت ہوتے ہیں. انہیں اپنے انصرامی امور کی سر انجام دہی کے سلسلہ میں اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی.
انہیں صوفیانہ اصطلاح میں “رجال الغیب” اور”مردان غیب” کہا جاتا ہے.
ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو انبیاء علیہم اپسلام کی اتباع میں ان کے قدم بہ قدم چل کر عالم شہادت تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور “مستوٰی الرحمان” کا مقام پاتے ہیں. وہ نہ تو پہچانے جا سکتے ہیں, اور نہ ہی ان کے اوصاف بیان کئے جا سکتے ہین. حالانکہ وہ وہ عام انسانی شکل میں ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے درمیاں صبح و شام مصروف کار رہتے ہیں .
ان میں ایسے حضرات بھی ہیں جو اپنے اپنے مقامات پر متعین ہیں عالم احساس میں جس انسان کی شکل چاہیں اختیار کر سکتے ہیں.لوگوں کو پردہ غیب سے پیچھے کی خبریں دیتے ہیں. پھر ان میں سے ایسے حضرات بھی ہیں جو تمام کائنات ارضی پر پھرتے رہتے ہیں, لوگوں کے کام سنوارتے ہیں, اپنا تعارف کرواتے ہیں اور پھر آناّ فاناّ غیب ہو جاتے ہیں. ان سے باتیں کرتے ہیں, ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں, ان کے مسائل کا جواب دیتے ہین.. جنگلوں, پہاڑوں, صحراؤں, سمندروں میں قیام کرتے ہیں.
ایسے حضرات میں سے زیادہ تر حضرات بستیوں ,شہروں میں بھی قیام کرتے ہین. صفاتِ بشری کے ساتھ صبح و شام بسر اوقات کرتے ہیں .بسا اوقات آبادیوں میں اعلی’ مکانات میں راہائش پذیر ہوتے ہین.. احباب کی شادی غمی میں شریک ہوتے ہیں.
لوگوں کو اپنے معاملات میں شریک کرتے ہیں. بیمار پڑتےنہیں تو اپنے حلقہ احباب سے عیادت بھی کرواتے ہیں, علاج کرواتے ہیں, اولاد و اسباب , احوال و املاک رکھتے ہیں. لوگوں کی دشمنیوں, بد گمانیوں, ایذا رسانیوں, حسد و بغض کے اثرات کو برداشت کرتے ہیں. مگر اللہ پاک اِن کے حسن احوال اور کمالاتِ باطنی کو اغیار کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھتا ہے..صاحبانِ نظر ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں, صاحبانِ احوال ان کی زیارت کو آتے ہیں.
راقم الحروف کو جب ان معاملات کا شعور ہونا شروع ہوا, یقین جانیں اس دن سے ہر بندہ اس کی نظر میں ولی اللہ ہے.اس کی نظر میں اگر کوئی اس روئے زمین پہ کمتر ہے ,ُبرا ہے تو تو وہ بذاتِ خود راقم الحروف ہے..
.
انہی مردان غیب کی شان میں ارشاد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ
“اوليائى تحت قبائى لا يعرفهم غيرى. ط”
مندرجہ بالا رجال اللہ (مردان خدا ) کو بارہ اقسام میں منقسم کیا گیا ہےَِ
- اقطاب
- غوث
- امامان
- اوتاد
- ابدال
- اخیار
- ابرار
- نقباء
- نجباء
- عمد
- مکتوبان
- مفردان
جبکہ پروفیسر باغ حسین کمال علیہ رحمہ اپنی کتاب ” حالِ سفر( از فرش تا عرش) ” میں ان مناصب کی درجہ بندی یوں کرتے ہیں
عبد
صدیق
قطب وحدت
فرد
قیوم
غوث
۔ قطب الاقطاب
(ما تحت قطب ِ ارشاد، قطبِ مدار، قطبِ ابدال)
قطبِ ارشاد(ماتحت 70 نجباء، 300 نقباء، 500 اخیار، 25 ابرار۔)
قطبِ مدار(ماتحت 4 اوتاد)
قطبِ ابدال(ماتحت 40 ابدال)
اللہ کریم حضرت باغ حسین کمال کی قبر انور کو اپنی رحمت اور نور سے بھر دے (آمین)..ان کے اپنے مشاہدات ہیں, .ان ہاں جو تقسیم ہے اس کی سمجھ ان کی کتاب کی مطالعہ سے آ تی ہے.. میں گنہگار ایک ولی اللہ کے الفاظ سے اختلاف کا تصور بھی نہین کر سکتا.. کہ
؎تو کجا من کجا..
میرا مقصد تو ایک سادہ ذہن کو سمجھانے والی بات ہے.. مدعا وہی ہے جو سرکار کمال صاحب نے فرمایا ہے.. اگر کہیں اختلاف پائیں تو سرکار باغ حسین کمال علیہ رحمہ کی تحریر کو ہی اہمت دیں,میری تحریر کو دیوار پہ دے ماریں..
1.اقطاب
ہر زمانہ میں صرف ایک قطب ہوتا ہے (الا ماشاء اللہ یہاں تو جگہ جگہ اشتہار لگے ہوئے ملیں گے). یہ قطب سب سے بڑا ہوتا ہے.. اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے قطبِ عالم, قطبِ کبری, قطبِ الارشاد , قطب ِمدار , قطب الاقطاب قطبِ جہاں، جہانگیر عالم وغیرہ وغیرہ
عالمِ علوی اور عالمِ سفلی میں اسی کا تصرف ہوتا ہے اور سارا عالم اسی کے فیض و برکت سے قائم ہوتا ہے. اگر قطبِ عالم کا وجود درمیاں سے ہٹا دیا جائے تو سارا عالم درہم برہم ہو کر رہ جائے.
قطبِ عالم براہ راست(بذریعہ نورِ مصطفویﷺ) اللہ تعالی سے احکام و فیض حاصل کرتا ہے اور ان فیوض کو اپنے ماتحت اقطوب میں تقعیم کرتا ہے.. وہ دنیا کے کسی بڑے شہر میں سکونت رکھتا ہے, بڑی عمر پاتا ہے , نور خاصہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکات ہر سمت سے حاصل کرتا ہے.
وہ اپنے ماتحت اقطاب کے تقر, تنزلی اور ترقی کے اختیار رکھتا ہے. کسی ولی کو معزول کرنا, کسی کی ولایت کو سلب کرنا, ولی کو مقرر کرنا, اس کے درجات میں ترقی کرنا, یہ سب اسی کے فرائض میں ہے..
یہ ولایتِ شمس پہ فائز ہوتا ہےلیکن اس کے ماتحت اقطاب کو ولایت قمر میں جگہ ملتی ہے.
قطبِ عالم۔۔ اللہ تعالی کے اسمِ مبارکہ “رحمٰن” کی تجلی کا مظہر ہوتا ہے. سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مظہر خاص تجلی الولایت ہیں.
قطبِ عالم سالک بھی ہوتا ہے اور اس کا مقام ترقی پذیر ہوتا ہے ..حتی کہ وہ مقام فردانیت تک پہنچ جاتا ہے, یہ مقامِ محبوبیت ہے..
رجال اللہ میں اس قطبِ عالم کا نام “عبداللہ” بھی ہے .
( اگر آپ نے سرکار باغ حسین کمال علیہ رحمہ کی کتاب کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ انہی باتوں کو سرکار علیہ رحمہ نے درجہ بدرجہ بیان نہیں کیا بلکہ وہ اسے بذات خود ایک مقام کا درجہ دیتے ہیں.. تاہم لبِ لباب یہی ہے).
اقطاب کی بے شمار اقسام ہیں. قطبِ ابدال, قطبِ اقالیم, قطبِ ولایت, وغیرہ وغیرہ..
بعض اوقات مختلف افراد کی تربیت لئے ایک ایک قطب کا تعین کیا جاتا ہے.. قطبِ زہاد, قطبِ عباد, قطبِ عرفاء, قطبِ متوکلان۔۔۔۔۔۔.. یہ اقطاب شہروں, قصبوں, گاؤں غرضیکہ جہاں جہاں انسانی معاشرہ ہے ,وہاں ایک قطب مقرر ہے جو اس کی محافظت اور اصلاح کا ذمہ دار ہوتا ہے., وہ بستی مومنوں سے آباد ہو چاہے کافروں سے , مگر قطب اپنے فرائض سر انجام دیتا رہتا ہے. مومنوں کی بستیوں مین اللہ کریم کے اسم مبارکہ “ہادی” کی تجلی سے کام لیا جاتا ہے, جبکہ کافروں کی پرورش یا نگرانی اللہ کریم کے اسم مبارکہ “مضل” کے ماتحت ہوتی ہے.
2.غوث
رجال الغیب میں نہایت ہی بلند درجہ “غوث” کا ہے.
بعض صوفیائے کرام ، اہلِ علم کے نزدیک “غوث” اور “قطب” ایک ہی شخصیت ہیں. مگر محی الدین ابن عربی رحمت اللہ علیہ نے “فتوحات مکیہ” میں غوث اور قطب کو علیحدہ علیحدہ شخصیات لکھا ہے. ان کے نزدیک قطب الاقطاب اور غوثِ مدار کے درمیاں بڑا فرق ہے. بعض اوقات غوث اور قطب کے اوصاف ایک ہی شخصیت میں جمع ہو جاتے ہین.
قطب کی وجہ سے “قطب الاقطاب ” اور غوث کی نسبت سے غوثِ اعظم اور غوث الثقلین کے مقامات نمایاں ہوتے ہین.
3 ۔ امامان
قطب الاقطاب کے دو وزیر ہوتے ہیں جنہیں “امامان” کہا جاتا ہے. ایک قطب کے داہنے ہاتھ ہوتا ہے اس کا نام “عبدالمالک” ہے.دوسرا بائیں طرف ہوتا ہے اس کا نام “عبدالرب” ہے.
داہنے ہاتھ والا قطب مدار سے فیض پاتا ہے اور عالم علوی سے افافہ کرتا ہے . بائیں ہاتھ والا بھی قطب مدار سے فیض پا کر عالم سفلی پہ افافہ کرتا ہے.
صوفیاء کے نزدیک بائیں ہاتھ والے امام کا رتبہ دائیں ہاتھ والے امام سے بلند ہوتا ہے.اسی وجہ سے جب قطب الاقطاب کی جگہ خالی ہوتی ہے تو بائیں ہاتھ والا ترقی پا کر اس کی جگہ لیتا ہے. جبکہ اس کی اپنی جگہ دائیں ہاتھ والا امام مقرر ہو جاتا ہے.
مشیت اس میں یہی ہے کہ عالمِ سفل(اس دنیا ) ,عالمِ کون و فساد میں انتظام کرنا اور امن و امان برقرار رکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے. اس عالم میں معاشرہ اپنی خواہشات, غیظ و غضب , شر فساد کی وجہ سے سخت انتظام و انصرام (Law and order, administration) کا تقاضا کرتا ہے, اس لئیے یہ وزیر زیاسہ مستعد, تجربہ کار اور مظبوط رکھا جاتا ہے بہ نسبت عالمِ علوی کے احوال زیادہ اصلاح یافتہ ہیں جہاں مشکلات کا سامنا کم ہوتا ہے.
4.اوتاد
دنیا میں 4چار اوتاد ہیں. یہ عالم (دنیا) کے چاروں آفاق(کونوں ,گوشوں) پہ متعین ہیں.
مغربی افق والے اوتاد نام “عبدالودود” ہے
مشرقی افق والے اوتاد کا نام “عبدالرحمٰن” ہے
جنوبی افق والے کا نام ” عبدالرحیم ” ہے
جبکہ شمالی افق والے کا نام “عبدالقدوس” ہے.
٭٭٭٭ (عملیات کی زبان میں مشرقی افق والے عبدالرحیم ہیں، جبکہ مغربی افق والے عبدالکریم، شمال پہ عبدالرشید، اور جنوبی افق پہ عبدالجلیل ہیں۔۔۔۔۔۔ حسن منصوری)
قیام عالم میں یہ اوتاد میخوں کا کام دیتے ہیں, پہاڑوں کی طرح زمیں پہ بیلنس/امن و امان برقرار رکھنے کا کام دیتے ہیں.
ارشاد باری تعالی ہے
“الم نجعل الارض مهادا والجبال اوتادا”
”کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو اوتاد نہیں بنایا؟”
اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں صوفیائے کرام نے اوتاد حضرات کے مقامات, فرائض, مراتب, اور قیامِ امن میں ان کے کردار کو تفصیلی طور پہ بیان فرمایا ہے ہے (عملیات سے شغل والے احباب کی دلچسپی کے لئیے ایک مجرب المجرب تعویذ کی تصویر منسلک ہے)
5.ابدال
رجال الغیب میں ابدال کا مقام نہایت بلند ہے انہین “بدلاء” بھی کہا جاتا ہے. یہ دنیا میں بیک وقت 7(سات) ہوتے ہیں. اور سات اقالیم پہ متعین ہین. یہ سات انبیاء کرام علیہم الصلوات والسلام کے مشرب پہ کام کرتے ہین . یہ لوگوں کی روحانی امداد کرتے ہیں. عاجزوں اور بے کسوں کی فریاد رسی پہ مامور ہیں.
امام محی الدین ابن عربی اپنےرسالہ” حلیۃ الابدال ” میں لکھتے ہیں : ” میں نے ایک بزرگ سے پوچھاکہ ابدال کسطر ح ابدال بنتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ” چار چیزوں سےجو ابو طالب مکی نےقوت القلوب” میں لکھی ہیں
(1) خاموشی ، (2) تنہائی ، (3) بھوک اور ( 4) بیداری
ا.:: اقلیم اول کے ابدال;; قلبِ ابراہیم علیہ السلام کے تحت کام کرتے ہیں. ان کا نام “عبد الحئی ” ہے.
ب::.اقلیم دوئم کے ابدال ;; یہ قلبِ موسیٰ علیہ السلام کے تحت کام کرتے ہیں , ان کا نام “عبدالنعیم” ہے.
ج:: اقلیم سوئم کے ابدال;; یہ قلبِ ہارون علیہ السلام کے تحت کام کرتے ہیں ان کا نام “عبدالمرید” ہے.
د.:: اقلیم چہارم کے ابدال;; یہ قلبِ حضرت ادریس علیہ السلام کے تحت کام کرتے ہیں. ان کا نام ” عبدالقادر” ہے۔
ہ.:: اقلیم پنجم کے ابدال;; یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قلب کے تحت کام کرتے ہیں, ان کا نام “عبدالقدیر” ہے.
( بعض صوفیائے کرام کے نزدیک ان کا نام “عبدالقاہر” ہے )
و::. اقلیم ششم کے ابدال; ؛ یہ حضرت عیسی’ علیہ السلام کےقلب کے تحت ہوتے ہیں. ان کا نام “عبدالسمیع” ہے.
ز::. اقلیم ہفتم کے ابدال;; یہ قلبِ آدم علیہ السلام پہ ہیں ان کا نام ”عبدالبصیر” ہے.
ان سات ابدالوں کو”قطبِ اقالیم” بھی کہا جاتا ہے
ان سات حضرات میں “عبدالقادر” اور “عبدالقاہر” کو ان سرکش قوموں پہ مسلط کیا جاتا ہے جو ظلم و ستم کو اپنا شعار بنا لیتی ہیں. ( عملیات میں اللہ کریم کے انہی صفاتی اسماء کو ”دب“ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔ حسن منصوری)
.
مندرجہ بالا ابدال کے علاوہ پانچ ابدال اور بھی ہوتے ہیں جو یمن میں رہتے ہیں اور پورے شام پہ ان کی حکومت ہوتی ہے یہ “قطبِ ولایت” کہلاتے ہیں.
قطبِ عالم کا فیض قطب اقالیم پر اور قطب اقالیم کا فیض قطبِ ولایت پہ اور قطبِ ولایت کا فیض تمام اولیائے جہاں پر وارد ہوتا ہے.
ان کے علاوہ 350 ابدال اور بھی ہوتے ہیں. جن میں سے 300 قلب آدم علیہ السلام پہ ہیں.
میر سید محمد جعفر مکی علیہ رحمہ نے ابدال کی تعداد 404 بتائی ہے جو مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوات والسلام کے مشرب پہ ہوتے ہین اور مختلف خدمات سر انجام دیتے ہیں.۔
نیاز بریلوی فرماتے ہیں.
لباس بوالبشر پوشیدہ مسجودِ ملک گشتم
بتصویر محمد حامد و محمود بود ستم
گہے ادریسؑ گاہے شیثؑ گاہے نوحؑ گہ یونسؑ
گہے یوسفؑ گہے یعقوبؑ گاہے ہودؑ بو ستم
گہے صالحؑ، گہ ابراہیمؑ، گہ اسحقؑ گہ یحیٰؑ
گہے موسیؑ، گہے عیسیٰؑ، گہے داؤدؑ بود ستم
برائے میکشاں امروز نقد وقت شاں گشتم
زبہرِ دیگراں روزِ جزا موعود بود ستم
بدریائے حقیقت بہر غواصانِ دریا دل
بہر عہدے و عصرے گوہرِ مقصود بود ستم
دعائے رجال الغیب (صیغوں میں تھوڑا فرق ہے) دوبارہ سے لکھنے کا مقصد ایک تو بہ نیت سعادت, دوسرے اس میں مذکور اولیائے مستورین کے نام/مدارج/مقامات (ٹرمینالوجیTerminolgy) کا پھر سے اعادہ ہو جائے..
“السلام علیکم یا رجال الغیب السلام علیکم یا ایھا الارواح المقدسة اعيونى بقوة أنظرونى بنظرة أجيبونى بدعوة يا نقباء يا نجباء يا رقباء يا بدلاء يا اوتاد الارض اوتاد اربعة يا امامان يا قطب يا فرد يا امناء أغيثونى بغوثة و انظرونى بنظرة وارحمونى و حصلو مرادى و مقصودى وقومو على’ قضاء حوالحى عند نبينا محمد صلى الله عليه وسلم و سلمكم الله تعالى’ فى الدنيا و الآ خرة”
6.اخیار
ابدال میں سے 40 اخیار کہلاتے ہیں…
7.نقباء
ان کی تعداد 300 ہے, ان سب کا نام “علی” ہے . انہی کی نسبت سے ابو العباس بلیا بن ملکان المعروف خضر علیہ السلام کو نقیب الاولیاء بھی کہا جاتا ہے..
حضرت خضر علیہ السلام کا ان شاء اللہ مفصل ذکر آگے ہو گا.. ان کے مقام پہ ان شاء اللہ سیر حاصل بحث کی جائے گی.. کیونکہ رجال الغیب اور اولیائے مستورین کی جماعت کی سردار و سرخیل یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں(یہاں اذہان میں پیدا شدہ سوالات پہ بھی ان شاء اللہ اگلی اقساط میں بات ہو گی).
8.ابرار
، نجباء کو کہیں ابرار بھی کہا گیا ہے۔۔ ، ان تینوں مدارج میں فرق کرنا مشکل ہے
9.نجباء
یہ تعداد میں 70/ہوتے ہیں. ان کا نام ” حسن” اور مقام مصر ہے.
10. عمد
یہ 4 ہستیاں ہوتی ہیں, نام “محمد” زمین کے مختلف خطوں میں کام کرتے ہیں..
سرکار باغ حسین کمال علیہ رحمہ اپنے مشاہدات “حالِ سفر۔۔۔۔از فرش تا عرش” میں فرماتے ہیں کہ
” پھر ابدال, اوتاد ,نجباء, نقباء, اخیار اور ابرار ہوتے ہین. یہ سب اپنی الگ شاخوں کے باوجود منصب میں تقریبا مساوی ہوتے ہیں…. اگر دنیا کو چالیس برابر ملکوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر ملک کا سربراہ ابدال ہو گا پھر نیچے تک اولیاء کا نظام پھیلا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ عالیہ سے حضرت خضرؑ اور حضرت الیاس علیہ السلام کو تکوینی امور میں ہر دور کے لئے قطبِ مدار اور قطبِ ابدال کا معاون ٹھہرایا ہے. اوتاد و ابدال جیسے اپنے اقطاب کے ماتحت ہوتے ہیں ویسے ہی وہ مذرکورہ بالا ہستیوں کے ماتحت ہو کر تکوینی امور انجام دیتے ہیں. یہ دونوں بزرگ ولایت کی قلندری شاخ کے سربراہ کا درجہ رکھتے ہیں. ایک منصب رجسٹرار کا بھی ہوتا ہے. حضورﷺ کے وسیع سیکرٹیریٹ کے سربراہ حضرت علیؓ ہیں. اس سیکرٹیریٹ اور اولیائے زمانہ کے درمیان ایک ضروری کڑی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ ہیں۔۔.مگر بعض اوقات غیر معمولی حالات میں ضابطوں کی کاروائی مختصر کرنے کے لئے کسی منصب دار کو براہِ راست مرکزی سیکرٹیریٹ سے منسلک کر دیا جاتا ہے، اسے ڑجسٹرار سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان اصحابِ مناصب کی روحانی توجہ کی قوت ان کے منصب کے اعتبار سے ایک دوسرے سے 100 گنا فزوں تر ہوتی ہے۔۔یعنی قطب الاقطاب کی سو بار توجہ غوث کی ایک بار توجہ کے مساوی ہوتی ہے۔۔اس حساب سے عبد کی توجہ کی قوت قطب الاقطاب کی قوت سے دس سنکھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ غوث کے اوپر والے اولیائے کرام ؒ اپنی قوت کی شدت کے باعث سالوں کا روحانی سفر دِنوں میں طے کرانے کے اہل ہوتے ہیں، اور اپنی غیبی توجہ سے بھی منازلِ سلوک طے کروا سکتے ہیں””
11 .مکتومان
یہ حضرات 4000 کی تعداد میں ہوتے ہین.ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں, ملتے ہیں مگر لطف کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتے. ان پر ان پنا حال آ شکار نہیں ہوتا. یہ ایسے لباس میں ہوتے کہ اغیار(دوسرے لوگ) انہیں پہچاننے سے عاجز ہوتے ہیں. یہ اپنے مقام سے خود نا آشنا یا یوں کہئیے کہ “حالت اخفاء” میں ہوتے ہیں.
ایک قریبی دوست کی فرمائش پہ ایک گمنام درویش کا مشاہدہ پیش خدمت ہے۔۔
راقم الحروف کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاوْں “گرو والہ” ہے، یہ راقم الحروف کے گاوْں کا داخلی ہے، یعنی اسی دیہہ کا حصہ ہی ہے، بس فاصلہ کم و بیش ایک کلو میٹر ہے۔۔ وہاں ایک حکیم ، ڈاکٹر صاحب مولوی نذیر احمد ہوا کرتے تھے۔۔پابندِ شرع، اور باریش بزرگ شخص تھے۔ اس گاوْں کی زیادہ تر آبادی جاٹ نسل “نوناری” اور “جوئیہ” قوم پہ مشتمل ہے، جن سے ایسی توقعات رکھنا کہ انہیں تصوف کے حرف کا بھی پتا ہو گا، فضول لگتا ہے۔۔ کھیتی باڑی کرنے والے کاشتکار، مزدور طبقہ۔۔ نماز روزہ سے بھی کم ہی واقفیت رکھنے والے۔۔
مولوی نذیر احمد البتہ صاحبِ علم شخصیت تھے، لتا، جی، محمد رفیع، کے۔ایل۔سہگل کی جتنی نایاب کولیکشن ان کے پاس تھی، شاید کسی شہر میں متمول شخص کے پاس بھی نہ ہو۔۔۔ 1937سے لیکر بعد تک کی انڈین بلیک اینڈ وائت فلموں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا۔، کئی راگ، راگنیاں بھی جانتے تھے (سنا ہے آج کل ان کے ایک بھتیجے نے انڈین فلم انڈسٹری میں بیک گروانڈ میوزک کمپوزر کے طور پہ دھوم مچائی ہوئی ہے)۔۔ غالب، ذوق، اقبال پہ دسترس رکھتے تھے۔۔۔ باکمال شخصیت، مجھے البتہ ان کی صحبت کا کم کم اتفاق ہوتا رہا، کہ میری کم عمری تھی، میٹرک کے بعد تو میں اپنے گھر کے لئے بھی مہمان بن کر رہ گیا۔۔
عارفوالہ گاوں سے قریب قریب 26 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، یعنی راقم الحروف کا پِنڈ پاکپتن اور عارفوالہ کے بیچ میں ہے۔۔
مولوی /میاں /حکیم نزیر احمد صاحب جز وقتی امام مسجد بھی تھے اور جمعرات کے دن خطابت بھی کرتے تھے۔۔
اسی گاوں کے دوسری طرف ایک عام سے دیہاتی “محمد حیات” کا گھر ہے، محمد حیات نامی یہ جاٹ بالکل ان پڑھ ہے، شروع میں بھیڑ بکریاں چراتا تھا، بعد میں تھوڑی بہت کاشتکاری کرتا رہا ہے۔۔ان دنوں بقیدِ حیات ہے۔۔ مسجد میں شاید عید کے دن ہی جاتا ہو۔۔۔۔ وہ بھی مجھے یقین نہیں
یہ واقعہ 1998 کے لگ بھگ کا ہے، اور اسی گمنام درویش کی آپ بیتی ہے۔۔ اس واقعے کے وقت وہ عارفوالہ شہر میں تھے
ایک مخصوص ورد کرتے ہوئے، کچھ ارواح نظر آئیں، جنہوں نے اطلاح دی کہ “مولوی نزیر احمد دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں، وہ “۔۔۔” مقامِ ولایت پہ تھے، ان کی جگہ عارضی طور پہ “محمد حیات” کو تعینات کیا گیا ہے۔ محمد حیات کو اپنی طرف سے اور ہماری طرف سے تعزیت بھی پیش کریں، اور انہیں نئے منصب کی مبارکباد بھی دے دیں، کہ تا حکمِ ثانی انہیں اس علاقے میں “۔۔۔۔” کا عہدہ دیا گیا ہے جب تک اوپر سے کوئی اور تعینات نہیں ہو جاتا، وہ اسی عہدہ پہ ہیں”
اسی گمنام درویش کے بقول وہ ہکا بکا رہ گئے، صبح صبح ہی گاوْں پہنچے تو مولوی نزیر احمد صاحب کی نمازِ جنازہ کی تیاری ہو رہی تھی، وہیں ان کی ملاقات محمد حیات سے بھی ہوئی۔ محمد حیات کو جب رات والا پیغام سنایا تو آگے سے کہنے لگا ” (پنجابی زبان میں) مجھے کیا پتا یہ کیا معاملات ہیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں، میں تو کبھی مسجد تک نہیں گیا، آپ یہ کیا کیا سنا رہے ہیں، ضرور آپ کا دماغ ہل گیا ہے وغیرہ وغیرہ”
محمد حیات سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی، ظاہر ہے جو میرا ظاہری گمان تھا۔۔۔
آج مکتومان پہ بات کرتے ہوئے محمد حیات اور میاں نزیر احمد والہ معاملہ شدت سے یاد آیا۔۔ سمجھنا، نہ سمجھنا آپ کی اپنی مرضی ہے۔۔۔ خاکسار پہلے بھی یہ بات دہرا چکا ہے کہ جب سے ان باتوں کی سمجھ آنی شروع ہوئی ہے، ہر بندہ اس کی نظر میں “ولی اللہ” ہے، روئے زمین پر اگر کوئی گنہگار ہے تو وہ خود راقم الحروف ہے۔۔۔
ویسے بھی
؎ زاہد نگاہِ کم سے کسے رِند نہ دیکھ
نہ جانے اُس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند
12.مفردان
افراد اس شخصیت کو کہتے ہیں جو قطبِ عالم سے ترقی کرتا ہے وہ “فرد” ہو جاتا ہے. مقامِ “فرادنیت” پر پہنچ کر تصرفات سے کنارہ کش ہو جاتا ہے.
قطبِ مدار عرش سے تحت الثرٰی تک متصرف ہوتا ہے جبکہ “فرد” متحقق” ہوتا ہے.
قطب ِمدار تو علی الدوام تجلی صفات میں رہتا ہے مگر خود تجلی ذات ہوتا ہے.
قطب مدار خاص ہے مگر فرد “اخص” ہے.
(یہاں مراد یہی ہے مقام فردانیت پہ پہنچ کر بظاہر فرد تکوینی امور سے علحدہ ہو جاتا ہے, مگر بالواسطہ نظر رکھتا ہے, وہ تجلیات میں گم ہو جاتا ہے, بلکہ اللہ پاک کے قرب میں گم ہو جاتا ہے… حسن منصوری)
یہاں پہنچ کر مراد باقی نہیں رہتی.
بعض اولیاء کو تجلی افعالی ہوتی ہے بعض کو تجلی آسمانی , بعض کو تجلی آثاری.
بعض اولیائے کرام مقام “صحو” میں ہوتے ہیں, بعض مقامٰ “سکر” میں۔۔بعض بیک وقت دونوں مقامات پہ.
مقاماتِ اولیاء خارج از حدود و حضر ہوتے ہیں
(روئے زمین قلندر کے اڑھائی قدم ہوتے ہیں۔۔ یا ایسے کہہ لیں بیک وقت وہ بہت سارے مقامت پہ پایا جاتا ہے۔۔)
اقبال سیالکوٹی رحمت اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خُونِ شفَق میں ڈُوب کر نکلے
ہُوئے مدفونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گُہر نکلے
غبارِ رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو، اِکسیر گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
حرم رُسوا ہُوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے
جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
زمیں سے نُوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے
اہل فردانیت تمام مقامات سے برتر ہوتے ہیں. تنزل کی ایک انتہا ہے, مگر عروج و ترقی کی کوئی انتہا نہیں. افراد ترقی کر کے جب فردانیت میں کامل ہو جاتے ہین تو ان کا رتبہ “محبوبیت” آ جاتا ہے. پھر محبوبیت سے مقبولان بارگاہ میں خاص امتیاز ذات ہوتی ہے.
حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانیؒ , سلطان المشائخ حضرت محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء “مقام محبوبیت پہ فائز ہیں. اولیائے امت میں یہ رتبہ کسی دوسرے کو نہیں ملا.
(اگر بات صرف شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ رحمہ کی جائے تو تصوف کے سبھی مقامات پہ ان کا تصرف ہے.۔۔۔حسن منصوری)
سرکار باغ حسین کمال علیہ رحمہ دوسری طرف ان مراتب مین فرد کے بعد ” صدیق” کا درجہ رکھتے ہین, اور مقام “صدیق” کے بعد سب سے اوپر والا درجہ “عبد” قرار دیتے ہیں. .
“اپنی کتاب ” حال سفر ..از فرش تا عرش” کے صفحہ نمبر 20 پہ رقمطراز ہیں
” گویا صدیق, عبد اور نبی میں اتنا قریبی اتصال ہے کہ جہاں صدیقیت و عبدیت کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے حد نبوت کا آغاز ہوتا ہے”
مزید فرماتے ہیں
” منصب “عبد” کے متعلق شیخ احد سرہندی مجدد الف ثانی دفتر اول کے مکتوب 30 میں یوں نشاندہی فرماتے ہیں ….لہٰذا مراتبِ ولایت کی انتہا عبدیت ہے ۔ولایت کے درجات میں مقام عبدیت سے اوپر کوئی مقام نہیں…”
(اسی کو اقبال علیہ رحمہ نے بہت خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے
؎عجب نہیں کہ خدا تک تیری رسائی ہو
تیری نظر سے پوشیدہ ہے آدمی کا مقام ..
حسن منصوری)
پروفیسر باغ حسین کمال علیہ رحمہ اسی بات کا تسلسل یوں فرماتے ہیں
۔منصبِ صدیق کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ “ازالۃ لاخلفاء” صفحہ 12 پہ یوں رقمطراز ہیں ::
“صدیق کے معنی بڑا سچا، اور شریعت میں ایک خاص مرتبہ ہے جس کی سرحد نبوت سے ملی ہوئی ہے”
حضرت موصوف نے اپنے والدِ ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم کے ایک خواب کا تذکرہ اپنی کتاب “انفاس العارفین” کے صفحہ 37 پر بایں الفاظ کیا ہے :: ” پس آنحضرت ﷺ نے میری روح کو اپنی روح میں لیا اور مقامِ صدیقیقت جو کہ ولایت کی انتہا ہے، سے گزار دیا”
“قیوم” (سرکار باغ حسین علیہ رحمہ اور دیگر کئی صوفیائے کرام کے نزدیک ایک مقامِ تصوف) کے متعلق حضرت امامِ ربانیؒ دفتر دوئم کے مکتوبات 74 میں فرماتے ہیں:: ” وہ عارف جو قیوم کے منصب پہ فائز ہو ،وزیر کا حکم رکھتا ہے کہ وہ مخلوق کے اہم امور کا تعلق اسی سے ہے۔گو انعام تو بادشاہ کی طرف سے ہوتے ہیں، مگر وزیر کی وساطت سے ملتے ہیں”
عبد، صدیق، اور قطبِ وحدت کے مناصب صحابہ کرامؓ اور خیرالقرون کے دور سے مختص تھے، تاہم زمانہ ما بعد میں بھی بعض خصوصی حالات میں قلیل حضرات کو ان میں سے بعض مناصب سے نوازا جاتا رہا۔ جب اسلام پہ کوئی افتاد پڑی اور محسوس کیا گیا کہ ظلمت کا مقابلہ غوث کی قوت سے نہیں کیا جا سکتا تو عمومی ڈگر سے ہٹ کر اللہ کے بندے کو غوث کی بجائے کسی اونچے منصب پہ فائز کیا گیا تا کہ وہ اپنی روحانی توجہ کی قوت سے لا دینیت کی ظلمت کو دین کے اجالے میں بدل سکے۔ مثلاّ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ “عبد” ، حضرت ابو محمد امام غزالی علیہ رحمہ “صدیق” اور حضرت مجد الف ثانیؒ “قطبِ وحدت” تھے۔ یاد رہے کہ اشتراکِ منصب و منازل کے باوصف انبیائے کرامؑ ، صحابہ کرامؓ، اور اولیائے کرام ؒ کے درجہ ، شان، اور شرف میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ غوث اور نچلے مناصب ہر زمانہ میں ہوتے ہیں۔لیکن بڑے مناصب خاص حالات میں۔غوث تمام دنیا کی روحانی حکومت کا صدر ہوتا ہے اور چاروں اقطاب اس کے وزراء کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں قطب الاقطاب بطور سیکریٹری فرائض انجام دیتا ہے، سینارٹیSeniority کے لحاظ سے پہلے قطب الاقطاب، پھر قطبِ ارشاد، پھر قطبِ مدار اور پھر قطبِ ابدال آتا ہے۔
قطبِ ابدال کا وجود بقاء سے متعلق امور میں وصولِ فیض کا ذریعہ ہے۔اس لئیے پیداءش، رزق، مصائب، صحت و آرام کے حاصل ہونے کا تعلق قطبِ ابدال کے فیض سے مخصوص ہے
ایمان ،ہدایت، توجہ اور امورِ خیر کی توفیق قطبِ ارشاد کے فیض کا نتیجہ ہے،۔۔پھر ابدال،اوتاد، نجباء، نقباء، اخیار اور ابرار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حالِ سفر۔۔۔از فرش تا عرش)
انہی اولیائے مستورین، رجال الغیب، بزرگان، صوفیائے کرام کے ان گنت مراتب و درجات میں چند ایک کے الگ سے نام اور مراتب بھی ہیں، یہاں ان کا بھی مختصر ذکر ہو جائے تو باعثِ خیرو برکت ہو گا۔۔
الف۔۔قلندر
اس کا سادہ سا مطلب “کل اندر”، سب کا مجموعہ، جس کے اندر سبھی کائناتیں، راز اللہ پاک کی ذات نے چھپا دئیے ہیں۔۔ یہ اولیائے کرام کے سبھی رنگوں کا مجموعہ ہے،۔۔
قلندر جہان تصوف میں ایسی ہستی قرار دی جاتی ہے ، جس نے خود کو پہچان کر اپنے خالق کی پہچان کر لی ہوتی ہے ۔ اور وہ اپنے نفس پر ایسے قادر ہوتا جیسے اک مداری اپنے پالتو سدھائے ہوئے جانوروں پر
شاہ نعمت اللہ ولی کی رائے میں ” جب ایک صوفی منتہیٰ اپنے مقاصد کو پالیتا ہے تو قلندر کے مقام کو پہنچ جاتا ہے”
تصوف میں یہ واحد مقام ہے جو کہ اپنے آپ میں مکمل ہے ۔ باقی تمام تصوف کے سلسلے راہ سلوک پر چلتے سالک سے ولی ۔ ولی سے ابدال ابدال سے قطب قطب سے غوث کی جانب رواں ۔” سالک ” سچے دل عبادت و ریاضت سے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) ،وجد، حال جیسی کیفیات سے گزرتے ” ولی ابدال قطب غوث کے درجے پاتے ہیں کہیں با شریعت تو کہیں مجذوب.. بلکہ اسے مجذوبین اور سالکین کا مجموعہ کہنا بہتر ہے۔۔۔ جب اس پہ سکر کی حالت ہو تو کیفیت اور ہوتی ہے، نحو کی حالت میں اور کیفیت، مطلب ہوش میں الگ رنگ اور مستی و مدہوشی میں اور رنگ ۔۔
“باہوش مجنوں” والی کیفیت کا مرکب ہے۔
اہل تصوف ” قلندر ” سے مراد ” آزاد اور اپنی مستی میں مست ہستی ” لیتے ہیں ۔ایسی مست ہستی جس نے کٹھن مجاہدے کے بعد اپنے نفس پر قدرت پا لی ہو۔” بو علی شاہؒ ” سخی لعل شہباؒز ” جناب رابعہ بصریؒ ” یہ تین ہستیاں درجہ ” قلندری میں بہت مشہور ہیں ۔ ویسے قلندر ھر دور اور وقت میں ھوۓ ھٰیں اور ھوتے ھیں ۔
قلندر سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے ۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا ۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا ۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے ۔ قلندر پر جذب غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں ۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے
اس لفظ کی کماحقہ تعریف و توصیف ممکن نہیں، تاہم ایک مبہم سا خاکہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں
٭٭٭٭قلندر اور صوفی ہم معنی ہالفاظ ہیں۔ قلندر وہ ہے جو حالات اور مقامات و کرامات سے تجاوز کر جائے خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے ہیں کہ موانعات سے مجرد ہو کر اپنے آپ کو گم کر دینے کا نام قلندری ہے۔ شاہ نعمت اللہ ولی فرماتے ہیں کہ صوفی منتہی جب اپنے مقصد پر جا پہنچتا ہے قلندر ہو جاتا ہے۔۔
( سر دلبراں از حضرت شاہ سید محمد ذوقی رحمت اللہ علیہ)
٭٭٭٭٭اصطلاح میں قلندر وہ شخص ہے جو دونوں جہان سے پاک اور آزاد رہے اگر ذرا بھی اسے کونین سے لگاو ہو تو وہ مذہب قلندر سے دور اور صاحبان غرور میں شامل ہے کیونکہ قلندر اس ذات سے عبارت ہے کہ نفوس و اشکال عادتی بلکہ آمال بے سعادتی سے بالکل متجردو بے تعلق ہو جاءے اور روح کے مرتبہ تک ترقی کرکے تکلیفات رسمی کی قیود و تعریفات اسمی سے چھٹکارا پانے میں اپنے دامن وجود کو تمام دنیا سے سمیٹ لے اور دست خواہش کو تمام خلائق سے کھینچ لے یہاں تک کہ بدل وجان سب سے قطع تعلق کر کے جمال و جلال کا طالب اور اس کی درگاہ کا واصل ہو جائے۔ قلندر ملامتی اور صوفی میں یہ فرق ہے کہ قلندر نہایت آزاد اور مجرد عن العلائق ہوتا ہے اور جہاں تک بنتا ہے عادت و عبادت کی تخریب میں کوشش کرتا ہے ملامتی عبادت کے چھپانے میں نہایت ساعی رہتا ہے یعنی کوئی نیکی ظاہر نہیں کرتا اور کوئی بدی چھپا کر نہیں رکھتا ہے ۔
(فرہنگ آصفیہ از سعید احمد دہلوی اسلامیہ پریس لاہور)
٭٭٭٭٭وہ شخص جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائقِ دنیوی سے بے خبر اور لاتعلق ہو کر ہمہ تن خدا کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو اور تکلیفات رسمی کی قیود سے چھٹکارا پا گیا ہو، عشق حقیقی میں مست فقیر۔***
(اردو لغت)
٭٭٭٭ان بندوں میں سے جو بندے قلندر ہوتے ہیں وہ زمان و مکان (Time and space) کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں اور سارے ذی روح اس کے ماتحت کیے جاتے ہیں کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے تابع فرماں ہوتا ہے لیکن اللہ کے یہ نیک بندے غرض، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو وہ اس کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کے لیے مقرر کیا ہے ۔***
(قلندر شُعور از خواجہ شمس الدین عظیمی)
٭٭٭٭ قلندر، وہ ہوتا ہے جو کائنات کو مسخر کیے ہوتا ہے، جو ہمہ وقت ایک فاتح سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ قلندر کے لیے کائنات مثلِ غبارِ راہ ہے اُس میں مزید کی خواہش جنم نہیں لیتی، وہ دولتِ دنیا لُٹا دینا چاہتا ہے۔ قلندر اپنے آپ میں ایک واصل ہوتا ہے قلندر کے در پر سکندر سوالی ہوتا ہے، وہ حصول ِ دنیا میں تا وقتِ قضا ایڑیاں رگڑتا ہے، سسکتا ہے اور خواہش کے کشکول میں حکومت کی بھیک مانگتا ہے۔ قلندر دونوں ہاتھوں سے سب لُٹا کے بے نیاز ہوتا ہے، وہ دمِ رقص ہوتا ہے ..اس کے چہرے کی مسکان اس کی پروان کا پتا دیتی ہے ..قلندر قبولیت کا نام ہے، جبکہ سکندر مقبولیت کا! قلندر درِ عطا پہ جڑا مہرِوفا ہے …وہ سراپائے حق نما ہے ..قلندر، حیدریم مستم ہے (سکندر و قلندر)***
جبکہ راقم الحروف کی ناقص رائے میں قلندر “سریانی” زبان کا لفظ ہے ، جو اللہ پاک کے صفاتی اسمائے مبارکہ میں سے ہے۔۔ “حی القیوم” سے مشابہہ اس کے معارف و معانی ہیں۔ بلکہ اسمِ ربی ” بدووح” کہنا مناسب ہو گا۔۔ جو بیک وقت جلالی و جمالی خاصیت رکھتا ہے( یہ بات ہم حروف۔۔اسمِ اعظم والی پوسٹ میں کر چکے ہیں کہ بقول امام احمدبونی علیہ رحمہ تمام حروف اللہ پاک کے اسمائے مبارکہ ہیں۔ اب اگر میں قلندر کے معانی میں مزید گیا تو مجھے ڈر ہے کہ مجھ پہ کفر کا فتویٰ نہ لگ جائے۔۔۔ تاہم سمجھنے والے میرا اشارہ سمجھ گئے ہیں۔۔ہمہ جا اوست)
سوائے ربِ کریم کے نہ کسی اور چیز کا طلب گار نہ خواہش مند۔۔، دنیا سے ماورا
اس کی کیفیت ہمہ وقت مراقبہ اور تفکر اور ذکر باطنی ہے۔۔۔ ساتوں آسمان و زمیں اس کے لئے دو قدم بھی نہیں، اس کا مقام اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے، ہم دنیاداروں کی سمجھ و ہوش سے ماورا مقام ہے قلندر کا۔۔ یہ قلندر والہ محکمہ رجال الغیب کے متوازی چلتا ہے، قلندر بذاتِ خود ایک مکمل محکمہ ہے، ان کا تعلق براہِ راست مولا مشکل کشا شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے اور حضور غوث پاکؒ سے ہوتا ہے، یعنی یہ براہِ راست انہی سے فیض یافتہ ہوتے ہیں۔۔
قلندر کےحال و مقام کا تعین شاید لفظوں میں بیان کیا ہی نہیں جا سکتا، کیونکہ ہم اہلِ قال، اہل حال کا بیان نہیں کر سکتے۔۔
اگر بالکل سادہ اور جٹکی زبان میں قلندر کہا جائے تو ” قلندر فقط دو الفاظ کی کائنات ہے “لا الہ۔۔الا اللہ”۔۔
اس کی پرواز، اس کی حدود ، مقامات کا تعین ۔۔۔ واللہ و رسولہ اعلم”
بو علی قلندر فرماتے ہیں
گر بو علی نوائے قلندر نواختے
صوفی بدے ہر آنکہ بعالم قلندر است
بلکہ ایک جگہ کیا فرماتے ہیں۔۔
من کہ باشم از بہار جلوہ دلدار مست
چون منے ناید نظر در خانہ خمار مست
(میں تو دلدار کے جلوے کی بہار سے مست ہوں
میخانے میں میری طرح کا مست نظر نہیں آتا)
مے نیاید در دلش انگار دنیا ہیچ گاہ
زاہدا ہر کس کہ باشد از ساغر سرشار مست
(شراب کے آنے سے دل میں دنیا کی قدر ختم جاتی ہے
اے زاہد جو کوئی بھی ساغر سرشار سے مست ہو)
جلوہ مستانہ کر دی دور ایام بہار
شد نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست
(تو نے بہار کے دنوں میں اپنا جلوہ مستانہ دکھایا
جس کی وجہ سے ہوا و بلبل ، نہر و پھول و باغ سبھی مست ہو گئے)
من کہ از جام الستم مست ہر شام کہ سحر
در نظر آید مرا ہر دم درو دیوار مست
(میں تو روز ازل سے جام الست سے مست ہوں اور ہر صبح و شام
درودیوار ہر لمحے مجھے مست نظر آتے ہیں)
چون نہ اندر عشق او جاوید مستیہا کنیم
شاہد مارا بود گفتار و ہم رفتار مست
(میں کیوں اس کے عشق میں مستیاں نہ کروں
جب کہ محبوب کہ رفتار و گفتار دونوں ہی مست ہیں)
تا اگر راز شما گوید نہ کس پروا کند
زین سبب باشد شمارا محرم اسرار مست
(اگر راز کو ظاہر کر بھی دیا جائے تو پروا نہیں
کیونکہ محرم راز بھی مست ہے)
غافل از دنیا و دین و جنت و نار است او
در جہان ہر کس کہ میباشد قلندر وار مست
(وہ دنیا و دین و جنت و دوزخ سے بے پرواہ ہوتا ہے
جو کوئی بھی اس جہان میں قلندر کہ طرح مست ہو)
ب۔ ملامتیہ (ملامتی)
صوفیاء کرام کے اس گروہ میں یہ لوگ باطن کے پاک و صاف مگر ریاکاری سے انہائی متنفر اور کوسوں دور ہوتے ہیں۔یہ اپنے کمالات باطنی کو اپنی ظاہری شکستہ حالی، بد حالی میں چھپائے رکھتے ہیں۔۔ ظاہر میں کچھ نظر آ رہے ہوتے ہیں، بلکہ ظاہری افعال ان کے معاشرتی، سمجاجی، مذہبی اقدار سے الگ یا الٹ نظر آتے ہیں، مگر اندر سے یہ اخلاص و تقویٰ کے پیکر ہوتے ہین۔ ظاہری آنکھ والے ان پہ طرح طرح کے بہتان، الزامات، فتاویٰ صادر فرماتے ہیں، مگر یہ من موجی ان باتوں کو درِخود اعتنا نہیں سمجھتے، ان باتوں کی نہ پرواہ کرتے ہین، نہ ہی ان پہ دھیان دیتے ہیں۔۔ جان بوجھ کر ایسے بھیس وٹاتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے بارے میں ایسا گمان تک نہ گزرے کہ ” اس گودڑی میں 7 بادشاہیوں کا مالک لعل ہے”۔۔ لوگوں کی لعن طعن برداشت کرتے ہین، سنتے ہین، مگر ان کا دھیان کہیں اور ہوتا ہے۔۔ ملامتیہ کے بانی بعض کے نزدیک حضرت ذوالنورین مصری ہیں۔۔۔
شریعت کے سامنے سر تسلیم خم ہوتے ہیں، کہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا بھی دفاع نہیں کرتے، بلکہ اسے نعمتٰ یار، حکم یار سمجھ کر ہسنتے ہنستے دار پہ چڑھ جاتے ہیں۔۔ یہی ملامت ان کا نفس کے خلاف مضبوط ہتھیار ہوتی ہے۔۔۔
اس محکمہ کے سرخیل ابو عیسیٰ طیفور المعروف با یزید بسطامیؒ ہیں جن کے بارے میں سرکارسے پوچھا گیا کہ ” صوفیائے کرام میں حضرت با یزید بسطامیؒ کا کیا مقام ہے؟؟”
جواب ملا
” ہم صوفیاء میں با یزید بسطامیؒ کا وہی مقام ہے جو ملائکہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ہے “”
(میں یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں کہ کم فہم ، اور عقیدت میں بڑھے ہوئے لوگ اپنے اپنے شیوخ کو دوسرے اولیائے کرام سے بہتر گردانتے ہیں، انہیں ایک دوسرے پہ فوقیت دیتے ہیں،(یہاں تک کہ سرکار باغ حسین کمال علیہ رحمہ کے کچھ مریدین انہیں حضور غوث پاک علیہ رحمہ سے بلند تر ولی اللہ گردانتے ہیں۔۔العیاذ باللہ) یہ جہالت اور کم علمی کی انتہا ہے۔۔۔ اوپر والی مثال کو دیکھ لیں، حضرت جنید بغدادیؒ کو “سیدالطائفہ” یعنی صوفیاء کے سردار کہا جاتا ہے، جبکہ وہ حضرت بایزید بساطمی کو سردار کہہ رہے ہیں۔۔
یہی صوفی ازم کی روح ہے، خود کو دسروں سے کم تر سمجھنا، دوسروں کو خود سے بہتر سمجھنا۔۔۔ یہ درجہ بندی، کم زیادہ درجہ والے سوچ کسی مولوی کی ہو سکتی ہے، جو خود کو بڑا عالم فاضل سمجھے، کسی ولی اللہ کی سوچ ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی، نہ ہی یہ ان کی تعلیم ہے۔۔ حسن منصوری)
مرشد من حضرت حسین بن منصور حلاج علیہ رحمہ بھی اسی محکمہ سے تعلق رکھتے ہیں، کئی صوفیائے کرام ” ملامتیہ ” کے بانی انہی حسین بن منصور حلاؒج کو قرار دیتے ہیں۔۔ بہر حال بہت سارے اولیائے کرام ایسے گزرے ہیں، اور آتے رہیں گے کو ملامتیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔(واضع رہے یہ ایک طریق کا نام ہے، ایک طرز کا نام ہے، یہ کوئی فرقہ یا مسلک نہیں )، سرکار مادھو لعل حسینؒ، سرکار عبداللہ شطاری بابا بلھے شاہ قادری شطاری، اور بہت سے پردہ نشین۔۔۔۔
مجذوب کو بیان کرنے سے پہلے ایک جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں، ایک محبت فرمانے والے محترم نے سوال کیا کہ ” کیا عورت بھی ابدال، ولیہ ہو سکتی ہے” انہوں نے اس ضمن میں یہ دلیل بھی دی ہے۔۔
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں
سوال ہوا، حضور “کیا مرد عورت کو تنہائی میں تعلیم دے سکتا ہے؟؟”
جواب ملا
” تعلیم دینے والے اگر سید الطائفہ ( صوفیوں کے سردار حضرت جنید بغدادی علیہ رحمہ شریعت محمدیہ کے سختی سے پابند) تعلیم لینے والی رابعہ بصری علیہ رحمہ (نصف قلندر۔۔نفس پہ با اختیار) ہوں، جس چیز کی تعلیم دی جارہی ہو وہ قرآن پاک ہو، جس جگہ تعلیم دی جائے وہ خانہ کعبہ کا اندرون ہو۔۔تب بھی مرد عورت کو تنہائی میں تعلیم و تدریس نہیں دے سکتا ” (حضرت با یزید بسطامی)۔
یہی دلیل میرے ان محترم دوست کی ہے کہ شیخ کامل اپنے بالک،سالک کو کڑی ریاضتوں ، مجاہدات سے گزارتا ہے، اس لئے کوئی عورت ولایت کے اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتی۔۔ کیونکہ محرم اور نامحرم والی شرعی قیود ہر جگہ لاگو ہوتی ہیں۔۔
اسے سمجھنے کے بعد اب یہ دلیل اچھی طرح سمجھ لیں
۔۔۔
حضرت شاہ ابوالعالی لاہوری رحمت اللہ علیہ نے اپنی کتاب ” تحفۃ القادریہ” میں لکھتے ہیں کہ جمال العارفین ابو محمد بن مصری نے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی ۔ آپ کو خضر علیہ السلام نے بتایا کہ میں ایک دن بحر محیط کنارے جا رہا تھا جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص گدڑی لیٹے سویا ہوا ہے۔ میں نے اس کے پاوْں کو ہلایا، اس نے کروٹ لیکر پوچھا کون ہے؟ کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا اٹھو! اللہ کی عبادت کرو۔ اس نے شان بے نیازی سے کہا تم جاوُ، اپنی راہ لو۔۔ میں نے اسے کہا کہ اگر تم نہ اتھے تو میں لوگوں کو بتا دوں گا کہ یہ ولی اللہ (رجل الغیب ) سویا ہوا ہے۔۔
اس نے آگے سے یہ جواب دیا اگر تم نہ گئے تو میں بھی لوگوں کو بتا دوںگا کہ تم خضرؑ ہو۔۔۔
میں نے پوچھا تم کیسے جانتے ہو؟؟ اس نے کہا جانتا ہوں تم ہی ابوالعباس خضؑر ہو، اب تم مجھے بتاوُ میں کون ہون؟؟ حضرت خضرؑ کہتے ہیں کہ میں اولیاء اللہ کا نقیب ہوں مگر مجھے اس شخص کے بارے میں علم نہ تھا۔(فضائل درود پاک کی کسی پوسٹ میں اسی طرح کا واقعہ شاید میں پہلے بھی شئیر کر چکا ہوں جہاں خضرؑ اس جوان کے مقام کے بارے میں لا علم تھے)۔ اللہ کی بارگاہ میں عرض کی تو آواز آئی کہ ” ابو العباسؑ! تم اُن اولیاء اللہ اور رجال الغیب کے نقیب ہو جو مجھے دوست رکھتے ہیں، لیکن یہ وہ شخص ہے جسے میں دوست رکھتا ہون”۔ اس شخص نے سر اُٹھا کر کہا ابوالعباسؑ اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ میں کون ہوں۔ حضرت خضرؑ نے ان سے دعا کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا “اللہ تعالیٰ تیرے مقام کو اور بلند کرے” یہ کہہ کر وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔ وہاں سے آگے چلا تو میں نے ٹیلے سے نُور نکلتے دیکھا، میں وہاں پہنچ گیا، جا کر دیکھاا تو ایک عورت گدڑی اوڑھے سو رہی ہے۔ یہ وہی گدڑی تھی جو پہلے والے بندے پہ دیکھی تھی۔ میں آگے بڑھ کر اس کے پاوْں ہلانے کی کوشش کی تو آواز آئی ” خضرؑ! یہ بھی ان رجال الغیب(اولیائے مستورین) سے ہے جنہیں میں دوست رکھتا ہوں۔” وہ عورت گدڑی سے بیدار ہوئی کہنے لگی ” میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے مجھے موت کے بعد زندگی عطا کی(بیداری کی دعا) جس نے مجھے اپنی محبت سے سرفراز فرمایا” ابوالعباسؑ تم نے اچھا کیا ادب سے کھڑے رہے، میں اس شخص(رجال الغیب) کی بیوی ہوں جسے تم نے اس وادی سے بیدار کیا۔۔ اس جنگل میں رات ایک ابدال عورت کا انتقال ہو گیا تھا میں اس کی غسل و تکفین کے لئے آئی تھی۔اب مجھے نیند آگئی ہے۔
حضرت خضرؑ نے کہا کہ میرے لئیے دعا کریں، وہ بولیں ” اللہ تجھے بلند مقام عطا فرمائے” یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئیں۔
(محی الدین ابن عربی رحمت اللہ علیہ اپنہ شہرہ آفاق کتاب “فتوحات مکیہ” مین اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے فاطمہ بنت ولیہ علیہ رحمہ کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ رجال الغیب میں سے تھیں۔۔ )
امید ہے ان شاء اللہ جواب مل گیا ہو گا۔۔۔ عورت ولی اللہ ہو سکتی ہے، ابدال کے مرتبے تک بھی پہنچ سکتی ہے، ساتھ میں جو شرط ہے وہ بھی معلوم ہو گئی ہو گی۔۔۔
تو چلتے ہیں مجذوب کی جانب
ج۔۔مجذوب
صوفیہ کرام میں مجذوب کا مقام انتہائی نازک اور منفرد ہے۔۔ دنیا و ہوش و خرد سے یگانہ ہوتا ہے۔۔ وہ یادٰ خدا میں ماسوا سے بیگانہ ہوتا ہے، اپنے آپ سے بیگانہ ہوتا ہے۔
جذب شدہ ، جو عشقِ الٰہی میں مجنون ہو، جسے اللہ کی محبت نے، اور اس نے محبت کو جذب کر لیا ہو، ۔۔ جو اس محبت میں اپنے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو۔۔ یہ وہ مقام ہے جس پہ شریعت کی پابندیاں ساقط ہو جاتی ہیں ، کیونکہ “دیوانے پہ کوئی شرعی حد نہیں لگائی جا سکتی”
یہ اپنے عیال، اقرباء سے بے نیاز، نہ کوئی مرید، نہ مریدوں کا سلسلہ، کبھی کچھ تو کبھی کچھ، کہیں گالیاں دیا ہوا پایا جائے گا تو کہیں ہستا ، گاتا، روتا۔۔ نہ تو مانگنے والا ہوتا ہے جو در بدر بھیک مانگتا پھرے،۔۔ اس کی ہر حرکت کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت، راز چھپا ہوتا ہے ، جسے اہلِ نظر ہی سمجھ سکتے ہیں۔
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ رحمہ “رجال الغییب ” کے ضمن میں “راکبان” اور “فرسان” کا تزکرہ بھی کرتے ہیں۔۔۔ الحمدللہ نماز غوثیہ، اور اسمائے غوث اعظم رحمت اللہ علیہ والی پوسٹ میں ان کا سرسری سا ذکر ‘ابلق گھوڑوں پہ سوار” کے لفظوں میں کر چکے ہیں، اشارہ کر چکے ہیں کہ کیسے مدد کو پہنچتے ہیں۔۔
جبکہ صوفیائۓ کرام ایک اور درجہ بھی بیان فرماتے ہیں ” سابقون”۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث مبارکہ کے مصداق، ۔۔۔۔ صوفیائے کرام کی کثیر تعداد سابقون سے مراد ابدال ہی لیتے ہیں۔۔۔
یہ تو وہ مدارج و مقامات ہیں جو اولیائے کرام نے بیان فرمائیے ہیں، ان کے علاوہ بھی گمنام ولی اللہ ہیں جن کا مقام اللہ اور اس کا حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی جانتے ہیں یا پھر امام ولایت مولا مشکل کشا رضی اللہ عنہ۔۔
رجال الغیب کے سرخیل ، سیدالنقباء ابوالعباس بلیا بن ملکان حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔۔
حضرت خضرؑ پہ ڈاکٹر حشمت جاء اپنی کتاب ” علم النجوم اور بروج” میں ایک بہت دلچسپ پیرایہ بیان کرتے ہیں “حضرت خضر علیہ السلام ذوالقرنین بادشاہ کے چچا زاد بھائی ہیں۔۔ ذوالقرنین کے والد بہت بڑے منجم(علم نجوم کا ماہر) تھے۔۔ انہوں ذوالقرنین کی پیدائش سے بہت پہلے اپنے اس علم کی مدد سے ایک مخصوص زائچہ تیار کیا ۔۔ اسی زائچے کی رو سے معلوم ہوا کہ فلاں سال، فلاں دن، فلاں رات کے فلاں فلاں وقت اگر وہ اپنی بیوی کے پاس جائیں تو جو بچہ پیدا ہو گا وہ تا قیامت حیات رہے گا اور نابغہ روگار ہستیوں کا سردار ہو گا۔۔۔۔ یہ سب کیلکولیٹ کر کے انہوں نے اپنی بیوی کو سختی سے تاکید کی اگر وہ وہ خود بھول بھی جائیں تو انہیں یاد کروا دیا جائے۔۔ بادشاہ کی بیوی نے یہ تاکید اپنی آرام گاہ میں واضع لکھوا کر لگوا لی تھی، ۔۔ خضر علیہ السلام کی والدہ نے وہ تحریر دیکھ لی (ڈاکٹر حشمت جاہ انہین ذوالقرنین کی خالہ لکھتے ہیں) او ر اپنے شوہر کو بتا دی۔۔ قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔۔ ذوالقرنین کی والدہ اور والد سالہا سال انتطار کرتے رہے، مگر عین اس وقت پہ انہیں بھلا دیا گیا، جب کہ بلکان کو یاد رہا، وہ اور ان کی بیوی اس خاص وقت میں قریب ہوئے تو ان کے بطن سے حضرت خضر علیہ السلام پیدا ہوئے۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس مخصوص وقت کے عین آخری لمحے بادشاہ کو یاد آیا، انہیں معلوم تو ہو گیا کہ وہ خاص وقت گزر چکا ہے مگر وہ بھی آخر منجم تھا، اسے معلوم تھا کہ اس وقت ملاپ سے وہ بچہ پیدا و گا جو ساری دنیا پہ حکومت کرے گا ۔۔ ان دونوں میاں بیوی کے اس مخصوص وقت کے آخری لمحات میں ملاپ سے ذوالقرنین پیدا ہوئے”
تحقیقی نظر سے دیکحا جائے تو ڈاکٹر حشمت جاہ کے یہ الفاظ “کہیں دور کی” لگتے ہیں۔ محقق کی نطر میں شاید ذرا بھی وقعت نہ ہو۔۔ مگر بالفرض آپ علم نجوم کی اگر الف ب سے واقف ہیں۔ اور اگر آپ کو “عقربی” لوگوں اور پھر “زیڈ زیڈ” ، ڈبل زیڈ، “ٹرپل زیڈ”، (ہندووں میں پائل بچے) کی سمجھ ہےتو یقین جانیں ڈاکٹر حشمت جاہ کی بات دل کو لگتی ہے
حضرت خضر علیہ السلام کون ہیں اور رجال الغیب سے حضرت خضرؑ کی نسبت کیا ہے؟
حضرت خضر علیہ السلام صدیوں سے رجال الغیب سے ملاقاتیں کرتے آئے ہیں، اور ان کی راہنمائی بھی فرماتے ہیں۔ تمام اہلِ نظر حضرت خضر علیہ السلام کو اولیائے ظواہر اور اولیاِئے مستورین کا کا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت خضر علیہ السلام کو “سید القوم ” تسلیم کیا ہے (روض الریاحین)۔
قسطلانی شرح بخاری شریف میں حضرت خجر علیہ السلام کو مردان غیب (رجال الغیب) کا راہنما تسلیم کیا گیا ہے۔حضرت خضرؑ کانام بلیآ بن ملکان تھا۔آپؑ کا لقب خضر تھا اور کنیت ابوالعباس تھی آپؑ حضرت نوح ؑ کی اولاد میں سے تھے اور آپؑ کے آباؤاجداد اس کشتی میں بھی سوار تھے۔
حضرت خضرؑ کانام بلیآ بن ملکان تھا۔آپؑ کا لقب خضر تھا اور کنیت ابوالعباس تھی آپؑ حضرت نوح ؑ کی اولاد میں سے تھے اور آپؑ کے آباؤاجداد اس کشتی میں بھی سوار تھے جو طوفانِ نوح میں بچ کر لوگوں کو محفوظ کرتی گئی جوکائناتِ ارضی پر آئندہ نسلِ انسانی کے آباؤاجداد بنے۔
خضر کا لقب پانے کی وجہ یہ ہے کہ آپؑ جہاں بیٹھتےوہاں سبزہ اگ آتا۔
جہاں قدم رکھتے سبزہ نمودار ہوجاتا۔
خضر کے معنی “سبز” کے ہیں۔اس لیے
انکا لقب خضر تھا۔
تفسیر روح البیان کے مصنف نے حضرت ابو اللیث کی روایت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
حضورﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو بتایا تھا کہ”
حضرت خضرؑ ایک بادشاہ کے فرزند تھےجو انہیں اپنا جا نشین بنانا چاہتے تھے۔
مگر خضرؑ نے نہ صرف جانشینی سے انکار کیا بلکہ وہاں سے بھاگ کر دوربیاباں میں چلے گئےوہاں آکرایسے گم ہوئےکہ کوئی شخص انہیں تلاش نہ کر سکا”۔
آپ کے اس سفر کے دوران آپکو آبِ حیات کاچشمہ ملا جس کا پانی پی کر آپ تاحیات زندگی پانے میں کامیاب ہوگئے۔
انکی تاریخِ پیدائش کا تو کسی کو علم نہیں مگر انکے زندہ ہونے اور تاقیامت زندہ ہونے کے آثار بخوبی ملتے ہیں …….
سیدنا حضرت ابو ہرہرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” حضرت خضر جہاں بیٹھتے اگر شہر ہوتا، چٹان ہوتی تو اس کے ارد گرد سبزہ اگ آتا”
اس سلسلے میں علامہ محمد یوسف( آثار شریف نورشاہؒ سرینگرکشمیر) نے ایک بہت خوبصورت مضمون لکھا ہے اسی سے اقتباس پیش کر رہے ہیں
“حضرت خضر علیہ السلام کون تھے اور رجال الغیب سے حضرت خضرؑ کی نسبت
اس بارے میں بہت سی رائےپائی جاتی ہیں۔ بعض علماءحضرات خضرٰؑ کونبی، کچھ ولی اور کوئی فرشتہ مانتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم ان تین کیٹیگریزکو دیکھ لیتے ہیں کہ یہ کون ہوتے ہیں۔
***نبی : اس کے ماخذ کے متعلق اہلِ لغت کے تین قول ہیں:
1: نَبَاٌ
2:نَبُوَّۃٌ
3: نَبَاوَۃٌ
پہلے قول کے مطابق نبی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے والا ہو۔
اگر اسکا ماخذ نَبُوَّۃٌ یا نَبَاوَۃٌ ہو تو اس کے معنی بلند اور اونچی چیز کے ہو جاتے ہیں کیونکہ نبی دوسروں سے ہر لحاظ سے(علم و مقام) ارفع و اعلیٰ ہوتا ہے اس لیے اسے نبی کہتے ہیں۔
علامہ اصفہانی کی رائے کے مطابق “نبا” ہر خبر کو نہیں کہتےبلکہ” نبا ” وہ خبر ہے جو :
* فائدہ مند ہو اور اہم اور عظیم ہو
فرشتہ :فرشتےنورانی مخلوق ہیں ۔ یہ انسان و جناّت سے بھی بہت پہلے سے موجود ہیں۔
انکا کام صرف اللہ کی عبادت کرنا اور اللہ کے احکامات ماننا ہے۔اور دنیا کے تکوینی امورانجام دینا بھی انکے کاموں میں شمارہوتے ہیں۔
**حضرت آدمؑ کو اللہ نے اسماء کا علم سیکھایا تو فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ یہ سجدہ اس بات کی علامت تھا کہ آدمؑ علم کی بنا پر فرشتوں سے افضل ہیں۔
** حضرت آدمؑ کے پاس فرشتوں سے زیادہ علم تھا۔
اگر حضرت خضؑر فرشتے تھے تو تب بھی وہ وہیں موجود ہونگے انہوں نے بھی آدمؑ کو سجدہ کیا ہوگا۔حالانکہ سجدے کا مطلب ہی انسان کی علم پر برتری قبول کرنا اور انسان کی خدمت کرنا تھا۔
**وہب بن منبہ نے رسول اکرم صلى الله عليه وسلم سے نقل فرمایا کہ جب موسیٰؑ نے یہ خیال کیا وہ اہلِ زمین میں سب سے بڑے عالم ہیں تو اس وقت اللہ نے جس شخص کی تلاش میں بھیجا وہ خضرٰؑ تھے __
(جو موسیٰؑ سے بھی بڑے عالم تھے) تاکہ وہ ان سے علم سیکھیں۔
جب فرشتوں سے زیادہ علم اللہ نے انسان کو دیا اور فرشتوں نے اس بات کو مانتےہوئے انسان کو سجدہ کیا تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ ایک نبی جو کلیم اللہ ہے وہ ایک فرشتے سے علم سیکھنےجائیں کیونکہ وہ ایک نبی سے بھی بڑے عالم تھے۔
حالانکہ وہ (فرشتے) سجدے کی صورت میں اپنی کم علمی کا اقرار کر چکے تھے ۔
لہذا حضرت خضرٰؑ فرشتے نہیں تھے
ولی : ولی اللہ کے نیک بندے اور دوست ہوتے ہیں۔ یہ وہ بوریا نشین انسان ہوتے ہیں جنکی ساری زندگی عبادت میں گزرتی ہے اوروہ اپنے نفس پر پورا اختیار رکھتے ہیں۔ اپنی عبادات اور مجاہدات سے وہاعلیٰ مقام حاصل کر لیتے ہیں جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔
انکی روحانی پرواز کعبہ شریف و روضہِ اطہر سے لے کر سدرہ المنتہیٰ تک ہوتی ہے۔ا نہی کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
” وہ مردانِ حق جنہیں تجارت اور خرید و فروخت یادِ خدا وندی سے غافل نہیں کرتی”۔
صوفیا ءکرام نےعلومِ اسلامیہ کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے:
⭕1: علم الاحکام
⭕2: علم الاسرار
علم الاحکام یعنی مسائل و فضائلِ شریعہ تک محدود رہنے والے علماء محدث،فقیہ، مفتی اور مجتہد وغیرہ کہلاتے ہیں ۔
اور صرف علم الاسرار کے جاننے والے درویش صوفی ابدال وغیرہ کہلاتے ہیں۔
البتہ اہلِ کمال کا ایک طبقہ ایسا بھی ہےجو دونوں علوم سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔
حدیث شریف میں انہیں بزرگوں کو انبیا ء کے وارث کہا گیا ہے۔
علوم الاسرار اور روحانیت کا سرچشمہ بھی دیگر علومِ اسلامیہ کی طرح قرآن مجید ہی ہے۔
اہلِ ولایت کو بھی صوفیا کرام نے دو طبقوں میں تقسیم کیا ہے ۔
ایک کا تعلق تشریحی امور سے اور ایک کا تعلق تکوینی امور سے ہے۔
🌐یعنی ایک طبقہ اہلِ دعوت و ارشاد ہے اور دوسرا طبقہ اہلِ تصّوف و اختیار ہےاور یہ رجال الغیب کی حیثیت سے تکوینی امور انجام دیتے ہیں مثلاًجنگ و امن ، عذاب و سزا ، بارش و طوفان، فتح و شکست ، حکومت و اقتداراور انسانی معاشرت سے متعلق دیگر انتظامی معاملات کا طے پانا(اللہ کے حکم سے ) ایسے ہی اہلِ باطن کے روحانی تصرف سے وابستہ ہوتاہے۔
اللہ فرماتے ہیں : ” زمین و آسمان کے لشکر اللہ ہی کے ہیں “۔(الفتح:4)
امام قرطبیؒ اس کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس رضی تعالیٰ عنہا کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آسمانی لشکر سے مرادملائکہ اور زمینی لشکر سے مراد اہلِ ایمان ہیں۔
مام جلال الدین سیوطیؒ اپنی تفسیر” الدر المنشور”میں بحوالہ ابن عباس رضی تعالیٰ عنہا نقل فرماتے ہیں : ” روحیں اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں_
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادیؒ نے اولیاء کرام کو بھی ” جنداللہ ” فرمایا ہے۔
اللہ کے بہت سے فرشتےکائنات کے تکوینی امور اللہ کے حکم سے انجام دے رہے ہیں ۔
لیکن مدبر حقیقی ذاتِ باری تعالیٰ ہی ہے۔سابقات اور سابحات بھی اس کے عطا کردہ امور میں مصروف رہتے ہیں۔
چنانچہ سور بقر آیت 251کی تفسیر میں امام قرطبی لکھتے ہیں کہ اس لشکر سے مراد “ابدال ” ہیں اور وہ چالیس ہیں۔
حضرت علی رضی تعالیٰ عنہا سے مروی ہے آپ نے فرمایا :”میں نےآپﷺ سے سنا : ” یقیناً ابدال شام میں ہونگےاور وہ چالیس مرد ہونگے، جب کبھی ان میں سے کوئی وفات پا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو متعین فرمائے گا، انکی برکت سےبادل بارش برسائیں گےاور انکے طفیل دشمنوں پر فتح دی جائے گی اور انکے صدقے زمین والوں کی بلائیں ٹال دی جائیں گی۔”
ابدال: یہ لوگ انبیاء کے نائب ہیں یہ قوم وہ ہے جسے اللہ نے اپنے لیے چن لیا اور اپنےعلم میں سے انہیں خاص علم عطا کیا ہے۔
امام محی الدین ابن عربی اپنےرسالہ” حلیۃ الابدال ” میں لکھتے ہیں : ” میں نے ایک بزرگ سے پوچھاکہ ابدال کسطر ح ابدال بنتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ” چار چیزوں سےجو ابو طالب مکی نےقوت القلوب” میں لکھی ہیں
(1) خاموشی ، (2) تنہائی ، (3) بھوک ( 4) بیداری
روئےزمین میں مختلف جہانوں اور آبادیوں میں بلکہ برّ و بحرمیں ایسے رجال الغیب اور مردانِ خدا ہر دور میں موجود رہتے ہیں ۔
صوفیا کرام فرماتے ہیں کوئی بستی اور قریہ ایسا نہیں جس میں ایک قطب یا ابدال نہ ہو جس کی برکت سے رحمت نازل اور عذاب ٹلتے ہیں۔
رجال الغیب اورخاصانِ خدا کی جماعت کے سردار و پیشوا حضرت ابو العباس خضرٰؑہیں ۔ آپ کو نقیب الاولیاءبھی کہا جاتا ہے۔
آپ اللہ کےعبد خاص اورصاحب علم لدنی ہیں۔
علم لدنی کیا ہے؟علم لدنی ا نہی اسماء کا علم ہے جو حضرت آدمؑ کو دیا گیا تھا۔ انہی اسماء کے علم کو تصّوف کی زبان میں علم لدنی کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں االلہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:” پس اسنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی خاص رحمت عطا فرما رکھی تھی اور اسے اپنے پاس سے خاص علم (علم لدنی) سیکھا رکھا تھا۔”
جو علم (علم لدنی ) آدمؑ کو دیا گیا تھا وہی علم خضرؑکے پاس بھی تھا لیکن وہ فرشتوں کے پاس نہیں تھا ۔
ثابت ہوا کہ حضرت خضرؑ فرشتے نہیں تھے۔تو پھر وہ کون تھے؟
اگر مذکورہ بالا آیت کو دوبارہ دیکھیں تو اللہ نے انکو “عبد” کہا ہے۔
عبدروحانیت کا سب اونچا منصب ہے۔منصبِ عبد کے متعلق
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒدفتراِ وّل کے مکتوب 30میں فرماتے ہیں :
“لہذا مراتب ولایت کی انتہا مقام عبدیت ہے۔ولایت کے درجات میں مقام عبدیت سے اوپر کوئی مقام نہیں۔”
اس لحاظ سے ہم خضرؑ کو ولایت کے سب سے اونچے مقام عبد سمجھ سکتے ہیں۔ جو اپنے سے نیچے تمام منصب کے ہیڈ ہیں۔لیکن یہاں ایک بات ہمیں روکتی ہے کہ کوئی غیر نبی کسطرح نبی سے بڑھ کرعالم ہوسکتا ہے؟
اور کیسے ایک نبی و رسول غیر نبی کے تابع ہو سکتا ہے۔کیونکہ جہاں عبدیت کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے حدِنبوت شروع ہوتی ہے۔
اگر وہ عبد ہوتے تووہ ہر لحاظ سے نبی سے نیچے تھے۔ لیکن موسیٰؑ کے واقعے میں خضرؑ کا علمی مقام موسیٰؑ سے زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے ہم انہیں ولی بھی نہیں مان سکتے ۔ ولی نہ ماننے کی وجہ ایک اور بھی ہےکہ کسی ولی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ علم الغیب کی بنا پر کسی انسان کو قتل کردے اور نہ ہی تاریخ میں ایساکبھی ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اولیاء کرام کو اللہ نے تب بھیجا جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اس سے پہلے رجال الغیب موجودتھے وہ حضرت آدمؑ کے زمانہ سے لے کرحضرت محمد ﷺ کے زمانہ تک اور آپؐ کے زمانہ سے لے حضرت عیسیٰؑ کے ظہور تک موجود ہونگے یعنی ابد سے آخر تک۔ اس سے پتہ چلتا ہے کی حضرت خضرؑ ولی نہیں بلکہ انکا تعلق رجال الغیب سے معلوم ہوتا ہے۔
لیکن انبیاء ، انسان، فرشتے اور جنات بھی رجال الغیب ہوسکتے ہیں ۔
انسان کی مثال میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور حضرت مجدد الف ثانیؒ وغیرہ ہیں ۔
اب حضرت خضرؑ نہ ولی ہیں نہ فرشتہ جیسا کہ ثابت ہوالہذا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم حضرت خضرؑ کو نبی مانے۔
اللہ نے قرآن میں اپنے انبیا ء و رسل کو کہیں عبد اور کہیں صدیق سے بھی خطاب کیا ہے۔سورۃ مریم آیت 41:” اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا ذکر کیجیے وہ صدیق اور نبی تھے۔” اور سور ۃ صٓ کی آیت 41:” اور ہمارے عبد ایوب کو یاد کیجیے”۔ اورحضورﷺ کے متعلق” عبدہ ُ وَ رَسُولہُ” اسی کی طرف اشارہ ہے۔اللہ نے عبد کا لفظ اپنے نبی کے لیے بھی استعمال کیا ہے اسلحاظ سےحضرت خضرؑ ایک نبی ہیں نہ کہ ولی یا فرشتہ۔
اور جیسا کہ نبی کی تعریف اوپر بیان ہو چکی ہے کہ جسے اللہ نے غیب کی خبریں دی۔ خضرؑ کے پاس بھی غیب کا علم تھا۔نبی سے مراد بلند اور ارفع بھی ہے۔
امام ابو جعفرالطحاوی نے ” مشکل الآثار ” میں حضرت ابوامامۃ الباھلی رضی تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو بنی اسرائیل کا ایک واقع سناتے ہوئے حضرت خضرؑ کا تذکرہ فرمایا اور دورانِ مکالمہ انکی نبوّت کا اثبات و اظہار فرمایا۔ (مشکل الآثار ،طحاوی ر قم : 1218 )
اس روایت کو امام طحاوی کے علاوہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائدمیں بحوالہ طبرانی نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ابو سعید نقاش نے اسے ” فنون العجائب” میں روایت کیا ہے۔امام ہیثمی کہتے ہیں کہ اسے طبرانی نے” معجم کبیر” میں روایت کیا اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد صفحہ 502 )
رہی وہ روایت جس میں حضرت خضرؑ نے فرمایاکہ “اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سیکھایا جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو دیا جسے میں نہیں جانتا۔”
حضرت موسیٰؑ کے پاس نبوت اور شریعت کا علم تھا۔اور حضرت خضرؑ کو اللہ نے نبوت کے ساتھ ساتھ بعض تکوینی امور کا علم (علم لدنی ) دیا تھاجسے صرف خضرؑ کو نوازہ گیا تھا۔
اور اس علم کی بدولت وہ ایسے کام اللہ کے حکم سے انجام دیتے تھے جو شریعت کے خلاف تھے۔یعنی شریعت کا علم جو اللہ نے موسیٰؑ کو دیا وہ خضرؑ کے پاس نہیں تھا۔
دوسرا جس میں خضرؑ فرماتے ہیں کہ میں جو بھی کرتا ہو اللہ کے حکم سے کرتا ہوں۔ تو صرف فرشتے ہی اللہ کے حکم سے ہر کام نہیں کرتے بلکہ نبی و رسول بھی اللہ کے حکم کے پابند ہوتے ہیں ۔
حضورﷺ نے بہت دفع کفارِ مکّہ سے فرمایا کہ میں جو کہتا ہوں خود سے نہیں کہتا بلکہ اس کا حکم تو مجھے اللہ کی طر ف سے وحی ہوتا ہے۔
قرآن میں بھی یہ آیت کی صورت میں موجود ہیں۔
لہذا حضرت خضرؑ ایک نبی تھے ۔
اور اللہ نے انہیں اپنی حکمتِ عالیہ سے ہر دور کیلیے قطب وابدال اور رجال الغیب کا معاون ٹھہرایا ہے۔
خضرؑ صدیوں سے رجال الغیب سے ملاقاتیں کرتےآ رہے ہیں۔
اور بعض اوقات انکی راہنمائی بھی کرتے ہیں۔تمام اہلِ نظر خضرؑ کواولیاء کرام کا قائد مانتے ہیں۔
سید علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپؑ کو ” سید القوم” تسلیم کیا ہے۔ (روض الریاحین)۔۔
قسطلانی شرح بخاری میں حضرت خضرؑ کو مردانِ غیب ہی نہیں بلکہ رجال الغیب کا رہنما بھی تسلیم کیا ہے۔”””
پچھلی اقساط میں یہ بات کر چکے ہیں کہ اللہ کریم نے ایسے ایسے بابغہ روزگار ولی اللہ پیدا فرمائے ہیں جن کا مقام وہی ذات کریم ہی جانتی ہے وہ حضرت خضر علیہ السلام کی نظر سے پوشیدہ رکھے گئے ہین۔۔۔ جیسے ایک بار بارگاہ حضرت عبدالقادر جیلانی علیہ رحمہ کے دربار کا ایک جوان۔۔۔
حضرت الیاس علیہ السلام بھی رجال الغیب کے معاونین ہیں۔۔ان پہ تفصیل مضمون لکھا ہوا ہے۔۔ان شاء اللہ پھر کبھی سہی۔۔
حضرت خضر علیہ السلام پہ جتنا لکھا جائے کم ہے، بلکہ اس مختصر تحریر میں ان کی شخصیت کا احااطہ نہیں کیا جا سکتا۔۔ یہ ان کے بارے میں مختصر سی تحریر ہے۔۔
محمد حسن منصوری
واہ