لانبی بعدی پر اعتراضات مع جوابات
اعتراض نمبر۱
لانبی بعدی سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں ہوگا جیسا کہ اکثر علماء کی تصریحات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں ہوسکتا نبی کریم ﷺ کی مراد بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی آمد بتلائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ لا میں عام نفی مراد نہیں ہے ۔
۔جواب نمبر ۱
یہاں پر لا نفی جنس کا ہے او رنفی عام ہے جیسا کہ مرزا نے خود تسلیم کیا ہے کہ : ’’الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمی نبینا ﷺ خاتم النبیین بغیر استثناء وفسرہ نبینا ﷺ فی قولہ لا نبی بعدی بیان واضح للطالبین ولو جوزنا ظھور نبی بعد نبینا ﷺ لجوزنا النفتاح باب وحی النبوۃبعد تغلیقھا وھذا خلف کما لا یخفی علی المسلمین وکیف یجیٔ نبی بعد نبینا ﷺ وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النبیین ۔‘‘ (حمامۃالبشری ٰ ص۲۰ مطبوعہ ۱۸۹۴ روحانی خزائن ص۲۰۰ ج۷)
مرزا صاحب نے کس صراحت کے ساتھ خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کا وہی ترجمہ اور مفہوم لیا ہے جو ہم لیتے ہیں باقی رہا عیسیٰ علیہ السلام والا اعتراض تو اس کا جواب گزر چکا ہے ان کی آمد سے کسی قسم کا فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے دوبارہ آنے سے انبیاء کی فہرست میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔
جواب نمبر۲
جیسے لا الہ الا اﷲ میں اﷲ کے بعد اﷲ تعالیٰ کے سواس کوئی ظلی بروزی خدا نہیں اسی طرح لا نبی بعدی میں بھی یہی مفہوم ہوگا۔
۔اعتراض
یہاں پر متکلم کی مراد دیکھنی چاہیے مراد متکلم یہی ہے کہ آ پکے بعد صاحب شریعت نبی کوئی نہیں ہوگاہرکلام میں متکلم کی مراد کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
جواب نمبر۳
ہم کہتے ہیں کہ متکلم کی مراد بھی وہی ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور نزع صرف لفظی ہے جیسا کہ مرزا نے اپنی کتاب چشمہ معرفت ص ۱۸۰ ،روحانی خزائن ۱۸۹ ج۲۳ پر تحریر کیا ہے واضح ہو کہ یہ کتاب مرزا کی موت سے چھ دن قبل ۲۰ مئی ۱۹۰۸ء کو چھپی۔
’’ اور ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانوں میں صرف لفظی نزاع ہے اور وہ یہ کہ ہم خدا کے ان کلمات کو جونبوت یعنی پیش گوئیوں پر مشتمل ہوں ،نبوت کے اسم سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیش گوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں یعنی اس قدر کہ اس کے زمانے میں اسکی کوئی نظیر نہ ہو اس کا نام ہم نبی رکھتے ہیں کیونکہ نبی اس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بہ کثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الہیہ کے قائل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیش گوئیوں پر مشتمل ہو ں ، نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے حالانکہ نبوت صرف آئندہ کی خبر دینے کو کہتے ہیں جو بذریعہ وحی والہام ہو اور ہم سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ شریعت قرآن شریف پر ختم ہوگئی ، صرف مبشرات یعنی پیش گوئیاں باقی ہیں ۔‘‘ (چشمہ معرفت حصہ دوم ص۱۸۰روحانی خزائن ص۱۸۹ ج ۲۳)
اعترا ض
لانبی بعدی کا یہ مطلب ہے کہ میرے مد مقابل او رمخالف ہو کر کوئی نبی نہیں آسکتا جیسا کہ حدیث فاولتھا کذابین یخر جان بعدی سے ثابت ہو رہا ہے ۔
جواب نمبر۱
بعدی سے مراد بعثت کے بعد مراد ہے خواہ زندگی میں ہویازندگی کے بعد جیسا کہ قرآن مجید میں اسی لفظ کا استعمال ہوا ہے اور وہاں موت مراد نہیں بلکہ زندگی کے متعلق استعمال ہوا ہے جیسے بئس ما خلفتمونی من بعدی اور آیت وقفینا من بعدہ الرسل سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں کئی نبی موجود تھے نیز بعدی کا معنی خود مرزا نے زمانے کا کیا ہے مقابلہ کا نہیں کیا۔ (کتاب البریہ ص۲۱۷،روحانی خزائن ص۲۱۸ج۱۳)
’’ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے آنحضرت ﷺ کے بعد تشریف لاوے ۔‘‘(انجام آتھم ص۲۷ روحانی خزائن ص۲۷ ج ۱۱ ،حمامۃ البشریٰ ص۲۰روحانی خزائن ص۲۰۰ ج۷)
جواب نمبر۲
لفظ بعدی کا مخالفت یامقابلہ کے معنی میں استعمال ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہاں بھی یہی معنی مراد ہو اگر آپ میں ہمت ہو تو کسی قرینہ سے ثابت کریں کہ یہاں یہی معنی ہے یا کسی مسلّم مجدد نے یہ معنی کئے ہوں ۔
اقوال بزرگان بر اجرائے نبوت وجواباتضروری نوٹ﴾
(۱) مرزائی جس قدربزرگوں کے اقوال اجرائے نبوت کے ثبوت میں پیش کرتے ہین ان میں اکثر وبیشتر میں دجل وتلبیس سے کام لیاجاتا ہے انہی بزرگوں کی ختم نبوت کے متعلق تصریحات موجود ہیں ۔
(۲) جوعبارتیں مرزائی پیش کرتے ہین جن سے وہ نبوت جاری ثابت کرتے ہیں ان تمام سے مقصد یہ ہے کہ ان کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ انکے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی چونکہ یقینی ہے اور وہ حضور ﷺ کی شریعت کے تابع ہونگے اس لئے وہ یوں کہہ دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے بلکہ آپ کا تابع ہوکر آسکتا ہے اس سے مراد ان کی صرف عیسیٰ علیہ السلام ہی ہوتے ہیں نہ یہ کہ کوئی قاعدے کے طور پر وہ پیش کرتے ہیں۔
تفصیل کیلئے علامہ خالد محمود کی کتاب ’’ عقیدۃ الامت ‘‘ او رمولانا محمدنافع کا رسالہ ’’ ختم نبوت اور سلف صالحین ‘‘ ملاحظہ ہو۔
(۳) سلف صالحین کی جس قدر عبارتیں پیش کی جاتی ہیں ان کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ حضور کے بعد نبوت جاری ہے بلکہ مرز اصاحب خود تسلیم کرتے ہین کہ سلف صالحین محدثیت اور مجددیت کے قائل ہیں ۔
مرزا نے اپنے مرنے سے ایک دن قبل ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء بوقت ظہر ایک سرحدی پٹھان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ میں کسی نئی نبوت کا قائل نہیں بلکہ جس قسم کی نبوت کے قائل شیخ ابن العربی وغیرہ ہیں مین بھی اسی قسم کی نبوت کا قائل ہوں اور اس کی ضرورت ہے ۔‘‘
آئیں دیکھتے ہیں شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کس قسم کی نبوت کے قاہل ہیں۔شیخ ابن عربی رحمۃاللہ علیہ اور ختم نبوت اور مرزائیوں کی بولتی بند!
ایک حدیث ”لم یبق من النبوت الا المبشرات” کی تشریح میں شیخ ابن عربی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں: قالت عائشہ اول ما بدی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرویا فکان لایری رویا الاخرجت مثل فلق الصبح و ھی التی ابقی اللہ علی المسلمین وھی من اجزاء النبوۃ فما ارتفعت النبوۃ یا نکیلہ ولھذا قلنا انما ارتفعت نبوۃ التشریح فھذا معنی لا نبی بعدہ۔(فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۷۳ سوال نمبر ۲۵)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کو وحی(نبوت) سے پہلے سچے خواب نظر آتے تھے۔ جو چیز رات کو خواب میں دیکھتے تھے وہ خارج میں صبح روشن کی طرح ظہور پذیر ہو جاتی تھی۔ اور یہ وہ چیزیں ہے جو مسلمانوں اللہ نے قیامت تک باقی رکھی ہے اور یہ سچا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ہے۔ پس اس اعتبار سے نبوت کُلی طور پہ بند نہیں ہوئی اور اسی وجہ ہم نے کہا لا نبی بعدی کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت تشریعی باقی نہیں۔
اس عبارت سے بلکل واضح ہے کہ نبوت سوائے اچھے خوابوں کے کچھ باقی نہیں۔ کیا ہر اچھا خواب دیکھنے والا نبی ہوتا ہے؟ کیا اچھے خواب دیکھنے والے کو آج تک امت کے کسی فرد نے نبی قرار دیا؟
پھر بعض علماء و صوفیا کو وحی و الہام سے نوازا جاتا ہے ، اس سے بادی النظر میں ختم نبوت سے تعارض معلوم ہوتا ہے۔ مگر ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو وضاحت کر دی” فلا اولیاء والا انبیاء الخبر خاصۃ والانبیاء اشرائع و الرسل و الخبر و الحکم“ (فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۱۵۸ صفحہ ۲۵۷)
انبیاء و اولیا کو اللہ تعالی کی طرف سے خبر خاصہ کے زریعہ خصوصی خبر دی جاتی ہے اور انبیاء کے لیے تشریعی احکام، شریعت و رسالت، خبر و احکام نازل ہوتے ہیں۔
ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ تمام انبیاء کی وحی کو تشریعی قرار دیتے ہوے قادیانیوں کے دجل کا قلع قمع کر دیا۔اب دیکھتے ہیں کہ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے جس نبوت کو جاری کہا اسکے متعلق ان کا کیا کہنا ہے۔
وھذا النبوۃ جاریۃ ساریۃ فی الحیوان مثل قولہ تعالی واوحیٰ ربک الی النحل۔(فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۱۵۵صفحہ۲۵۴)
اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جبکہ اللہ فرماتا ہے تیرے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی۔
ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس صراحت نے تو یہ بات واضح کر دی کہ وہ جہاں پر نبوت کو اولیاء کے لئے جاری مانتے ہیں انکو وحی نبوت نہیں بلکہ خبر و ولایت سمجھتے ہیں جو صرف رہنمائی تک محدود ہے۔ احکام و اخبار، امر و نہی شریعت و رسالت کا اس سے تعلق نہیں یہ صرف رہنمائی ہے جس کے لیے انھوں نے نبوت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور وہ اس نبوت کو حیوانات میں جاری سمجھتے ہیں۔ کیا ”قادیانی نبوت” گدھوں، کتوں وغیرہ کو بھی مل سکتی ہے؟
یہ بالکل واضح ہے کہ یہ حضرات مجددیت اور محدثیت کے قائل تھے اگر یہ نبوت کے قائل ہوتے تو یہ لوگ اپنے پر ایمان لانے کی دعوت دیتے اور اپنے منکرین کو کافرکہتے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ہے ۔
صداقت مرزا پر ادلہ اور ان کے وجوہاتدلیل اول
’’فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ‘‘ مرزائی کہتے ہیں کہ جس طرح نبی کریم ﷺ نے اپنی نبوت سے قبل کی زندگی جو کفار میں گزاری تھی کو بطور دلیل پیش کیا اسی طرح مرزا صاحب کی بھی نبوت سے قبل کی زندگی بے داغ ہے بعد کی زندگی پر الزامات لگائے گئے مگر چونکہ اس وقت مخالفت تھی اس لئے الزامات لگائے گئے تو مرزا کی پہلی زندگی دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بے داغ ہے اور مرزا صاحب خدا کے سچے نبی ہیں۔
جواب نمبر۱
نبی کی ساری زندگی پاک اور بے داغ ہوتی ہے بعد کی زندگی سے بحث سے فرار اختیار کرنا اس پر دال ہے کہ اس کی زندگی میں ضرور کچھ کالا کالا ہے ۔
جواب نمبر۲
مرزا نے اپنی پہلی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ لڑ کر وراثت حاصل کی حالانکہ نبی کسی کا وارث نہیں ہوسکتا ۔ نحن معشر الانبیاء لانرث ولانورث۔
جواب نمبر۳
آپ کا یہ صغریٰ اور کبریٰ ہی مسلم نہیں ہے یہ تو بالکل صحیح ہے کہ نبی کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک و صاف اور بے داغ ہوتی ہے اور دعوائے نبوت سے بعد کی زندگی بھی پاک و صاف ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس کی پہلی زندگی پاک وصاف اور بے عیب ہو وہ نبی بھی ہو جائے جس طرح نبی کیلئے ضروری ہے کہ وہ شاعر نہ ہو ، وہ کسی سے لکھناپڑھنا نہ سیکھے،جو جھوٹ نہ بولتا ہو لیکن یہ تو ضروری نہیں کہ جو شاعر نہ ہو یا لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو یاجھوٹ نہ بولتا ہو وہ نبی بھی ہوجائے ۔
جواب نمبر۴
مرزا قادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ انبیا ء علیہم السلا م کے سوا کوئی معصوم نہیں اور نہ میں معصوم ہوں ملاحظہ ہو : ’’ لیکن افسوس کہ بٹالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے اور نہ کسی اور انسان کو بعد انبیاء علیہم السلام کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے ۔‘‘(کرامات الصادقین ص۵ روحانی خزائن ص۴۷ ج۷)
جواب نمبر۵
مرزا قادیانی خود اقرا ر کرتا ہے کہ میں نے بہت عرصہ گم نامی کا گزارا ہے کہتا ہے : ’’ یہ اس زمانہ کے الہام ہیں جس پر تیس برس سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اور یہ تمام الہام براہین احمدیہ میں شائع ہوچکے ہیں جن کے شائع ہونے پر اب ۲۶ برس سے زیادہ عرصہ گذر گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جس میں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا نہ کوئی موافق تھا نہ مخالف کیونکہ میں اس زمانہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور ایک احد من الناس اور زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا ، بلکہ اس قصبہ کے تمام لوگ اور دوسرے ہزار ہا لوگ جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں درحقیقت میں اس مردہ کی طرح تھا جو قبر میں صد ہا سال سے مدفون ہواور کوئی نہ جانتا ہو کہ یہ کس کی قبر ہے ۔‘‘(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۷،۲۸ روحانی خزائن ،۴۵۹،۴۶۰ ج۲۲)جب مرزا قادیانی بقول اپنے ایسا گمنام تھا کہ اس کا نہ کوئی مخالف تھا نہ موافق بلکہ وہ ایک مردے کی طرح تھا جو صد ہا سال سے قبر میں مدفون ہو تو اب ایسی زندگی کا بطور صفائی ودعویٰ پیش کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟؟؟؟
جواب نمبر ۶ (ماں کی نافرمانی )
’’ بیان کیامجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت نے والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو حضرت نے فرمایا کہ نہیں میں یہ نہیں لیتا انہوں نے کوئی اور چیز بتائی حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھالو حضرت روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہوگیا۔‘‘(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۲۴۵روایت ۲۴۵)
ہر عقل مند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ مرز کی ماں کا مقصود ہر گز یہ نہیں تھا کہ تم سچ مچ راکھ ہی سے روٹی کھاؤ بلکہ بطور زجر کہا گیا تھا اور جہاں اس حوالہ سے مرزا صاحب کی بے وقوفی ثابت ہورہی ہے وہاں مرزا صاحب کی ماں کی نافرمانی بھی ثابت ہورہی ہے ۔ اب بتائیے کوئی نبی اپنی ماں کی نافرمانی کرسکتا ہے ؟ اور وہ بھی معروف کام میں۔
جواب نمبر ۷
’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے داد ا کی پنشن وصول کرنے گئے تو اما م دین پیچھے پیچھے چلا گیا ۔ جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا ور ادھر اُدھر پھراتا رہا پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کرلیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا ۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے ……الخ ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۴۳ روایت نمبر۴۹)
واضح ہوکہ مرزاکی عمر اس وقت ۲۴؍۲۵ سال تھی کیونکہ پیدائش( حسب تحریر کتاب البریہ ص۱۴۶) ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء ہے اور تاریخ ملازمت (حسب تحریر سیرۃ المہدی ص۱۵۴) ۱۸۶۴ء ہے ۔ نیز واضح ہوکہ یہ پنشن کی رقم معمولی رقم نہ تھی بلکہ سات صد روپیہ تھی جو آج کل کے ساتھ لاکھوں کے برابر ہوسکتی ہے ۔
اب مرزا صاحب کی عمر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اتنی خطیر رقم کو بھی ذہن میں رکھتے ہو ئے خط کشیدہ الفاظ پر غور فرمائیں کہ آخر اتنی رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی ؟ کیا حضرت صاحب اس وقت بچے تھے کہ امام دین آپکو بہلا پھسلا کر اور دھوکہ دے کر کہیں اور لے گیا اور ادھر اُدھر پھرانے کا کیا مطلب ہے ؟ اگر مرزا صاحب اتنے بھولے اور چھوٹے تھے تو گھر والوں نے اتنی بڑی رقم لینے کیلئے انہیں کیوں بھیجا؟ ذرا غور فرمائیں کہ یہ لفظ کہاں کہاں کی غمازی کرتا ہے ؟پھر سوچیں کہ یہ روپیہ کوئی نیک کام میں خرچ نہیں ہوا بلکہ ’’ اڑایا گیا ‘‘ اور اڑانا وہاں ہی بولا جاتا ہے جہاں کار خیر نہ ہو۔
باہر جانا اصطلاح ہے جو آوارہ آدمی اپنے گھر پر قناعت نہیں کرتے وہ ادھر ادھر جاتے ہیں۔ اور کوئی نوجوان بدکاری کا عادی ہو تو کہتے ہیں”فلاں شخص باہر جاتا ہے“۔
بعض مرزائی جواب دیتے ہیں کہ یہ 700 روپے کنجریوں کے ہاں آنے جانے میں نہیں لگے تھے بلکہ مرزا صاحب نے عدالت کو جرمانے میں ادا کیے تھے اور سات سو روپے جرمانہ آپ کو مولانا کرم الدین ضلع جہلم کے دائر کیس میں ہوا تھا تو مرزا صاحب نے یہ روپے وہاں دیے تھے ادھر ادھر صرف نہیں کیے۔
یہ جواب غلط ہے مولانا کرم الدین کے کیس میں امام الدین کا ذکر نہیں ملتا مگر پینشن کے کیس میں امام الدین آپ کو ادھر ادھر پھراتا رہا۔ یہ رقم شرمناک کاموں کے سوا اور کہیں صرف نہیں ہوئی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے مرزا غلام سؤروں کے شکار کے لیے ادھر ادھر گھومتے رہے ہوں تاکہ ان پر یہ پیشگوئی پوری ہو سکے ‘ یہ لوگ حیران ہو کر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اور باہر سؤروں کا شکار کھلتا پھر رہا ہے۔(سیرت المہدی سوم صفحہ۲۹۲)
بات کے شروع میں مرزا صاحب کی جوانی کا ذکر ہے۔ جوانی کا ذکر کر کے ادھر ادھر گھومنا کیا معٰنی رکھتا ہے؟(اور مرزا کے شوخ مزاج ہونے پر عدالت بھی گواہ ہے) اگر یہ کوئی شرمناک حرکات نہ تھی اس کے آخر میں مرزا صاحب کو شرم آنے کا بیان کیوں ہے؟ معلوم ہوا کہ واقعی ہی ان سے شرم ناک کام واقع ہوے تھے۔ پھر یہ واقع ایسا ہے کہ اسے صرف مرزا غلام کی بیوی ہی بیان کرتی ہے۔ ظاہر ہے عورتیں اپنے خاوندوں کی “اس قسم” کی حرکات کا بہت خیال رکھتی ہیں۔
ہم مرزائیوں سے سوا ل کرتے ہیں کہ آپ اس سات صد روپے کا حساب دیں کہ کہاں خرچ ہوا؟ بصورت دیگر آپ کے نبی کی عصمت باقی نہین رہتی اور آپ کا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے کہ مرزا صاحب کی نبوت سے قبل کی زندگی بالکل بے داغ تھی۔
۔جواب نمبر ۸
نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر ان کے سامنے اپنی صفائی کا اعلان کیاانہوں نے یک زبان جوکر اعلان کیا کہ ’’ جربنا ک مرار فما وجدنا فیک الا صدقا ‘‘ یعنی ہم نے آپ کو بار بار آزمایا پس ہم نے تجھ میں سچائی کے سوا کچھ نہیں پایا۔ اس کے برعکس مرزا قادیانی اپنی صفائی میں مولوی محمد حسین پیش کرتا ہے جو کہ کچھ تھوڑا عرصہ اس کے ساتھ رہا تھا حالانکہ وہ مرزا قادیانی کے شہر کا رہنے والا بھی نہ تھا۔ حضور اکرم ﷺ کی صفائی تو آپکے قبیلے کے سردار ابوسفیان نے ہر قل بادشاہ کے سامنے اسوقت پیش کی تھی جبکہ ابھی انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا جو آپ کی رفیقہ حیات تھیں انہوں نے آپ کی پہلی زندگی کی صفائی پیش کی ، جبکہ آپ کی طرف پہلی دفعہ جبرائیل امین آئے تھے اور آپ ﷺ کی آخری زندگی کی صفائی حضرت عائشہ صدیقیہ رضی اﷲ عنہا پیش کررہی ہیں فرماتی ہیں ’’ کان خلقہ القرآن ‘‘ آپ کا اخلاق قرآن ہے ۔
اب مرزاقادیانی کی بیویوں کی گواہی و حالت سنیں ، مرزا قادیانی اپنی پہلی بیوی فضل احمد اور سلطان احمد کی ماں المعروف ’’ پھجے دی ماں ‘‘ سے فضل احمد کی پیدائش کے بعد تقریباً ۳۳ سال عملاً مجرد رہا نہ اسے طلاق دی اور نہ ہی اسے بیوی کی طرح بسایا بلکہ عملاً مجرد رہ کر آیت کریمہ ولا تذروھا کالمعلقۃ کی صریح مخالفت کی اس طرح عاشرو ھن بالمعروف ولا تمیلوکل المیل کی بھی صریح مخالفت ہوئی ۔
حوالہ نمبر ۱: ’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔ حافظ نور محمد متوطن فیض اﷲ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ فرمایاکرتے تھے کہ سلطان احمد (مرزا سلطان احمد صاحب ) ہم سے سولہ سال چھوٹا ہے اور فضل احمد بیس برس اور اس کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی تعلق نہ رہا ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ ۲ ص۶۳روایت۳۸۲)
حوالہ نمبر ۲: ’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ جن کو لوگ عام طور پر ’’ پھجے دی ماں ‘‘ کہا کرتے تھے بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کاان کی طرف میلان تھاا ور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اسلئے حضرت مسیح موعود نے ان سے مباشرت ترک کردی تھی ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۳۳ روایت ۴۱)
اس حوالہ کی چند سطور کے بعد لکھا ہے ’’ حتی کہ محمدی بیگم کا سوال اٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کرکے محمدی بیگم کانکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے (مرزا کی دوسری بیوی ) ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہیں تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دی ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۳۴ روایت ۴۱)
نوٹ ﴾ مرزا نے دوسری شادی نصرت جہاں بیگم سے ۱۸۸۴ء میں کی تھی اور پھجے کی ماں کو ۱۸۹۲ء میں طلاق دی تھی اور ۱۸۹۲ء میں محمدی بیگم کا نکاح سلطان احمد سے ہوا۔
دلیل ثانیقرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ’’ ولو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین ‘‘ ۔ اگر محمد مصطفی ﷺ مجھ پر کوئی جھوٹا افترا باندھیں میں ان کی شہ رگ کاٹ کر ہلاک کردیتا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر مرزا قادیانی خدا تعالیٰ پر جھوٹا افترا کرتا تھا تو اسے ۲۳ سال کے اندر اند رہلاک کردیا جاتا اور اسکی شہ رگ کاٹ دی جاتی کیونکہ نبی اکرم ﷺ دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال تک بقید حیات رہے ۔
جواب نمبر۱
اس آیت کا سیاق وسباق دیکھیں تو بات واضح ہوجائے گی کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشادکسی قاعدہ کلیہ کے طور پر نہیں بلکہ یہ قضیہ شخصیہ ہے اور صرف حضور ﷺ کے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے اور یہ بھی اس بنا ء پر کہ بائبل میں موجود تھا کہ اگر آنے والا پیغمبر اپنی طرف سے کوئی جھوٹا الہام یا نبوت کا دعویٰ کرے تووہ جلد مارا جائے گا :’’میں ان کیلئے ان ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جوکچھ اسے حکم دوں گا وہی ان سے کہے گا اور جوکوئی میری باتوں کو جن کو وہ میرانام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب ان سے لوں گا لیکن جو نبی گستاخ بن کرکوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو ہ نبی قتل کیا جائے ‘‘(کتاب استثناء ۱۸ تا ۲ )
جواب نمبر۲
اگر مرزاقادیانی اوراس کے متبعین کے اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو کئی سچے نبی نعوذ باﷲ جھوٹے بن جائیں گے اورکئی جھوٹے نبی سچے ہوجائیں گے ۔
حضرت یحیٰ اور ان کے علاوہ کئی اور اسرائیلی پیغمبر بہت تھوڑی عمر میں یعنی ۲۳ سال کی مدت کے اندر اندر شہید کردیے گئے ۔ مرزا کے اصول کے مطابق یحیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء جو ۲۳ سال کے اندر شہید ہوئے وہ جھوٹے بن جائیں گے نعوذ باﷲ اور کئی جھوٹے نبی سچے ہوجائیں گے جیسے بہاؤاﷲ ایرانی جو دعویٰ نبوت کے چالیس سال بعد تک زندہ رہا ، مرزا قادیانی کے اس اصو ل کے مطابق بہاؤاﷲ جو صاحب شریعت نبی ہونے کا مدعی تھا سچا ثابت ہورہا ہے حالانکہ مرزا ئی اس کو جھوٹا مانتے ہین ۔ بہاؤاﷲ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ۱۲۶۹ھ میں کیا تھا اور ۱۳۰۹ھ تک زندہ رہا تو اسکی بعد ازدعویٰ نبوت زندگی چالیس سال بنتی ہے ۔(کتاب الفرائد بہائیوں کی کتاب ص۲۵،۲۶ اور الحکم ۲۴ أکتوبر ۱۹۰۴ ص۴)
جواب نمبر ۳
مرز اقادیانی اپنی دلیل کی رو سے بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اس کا دعویٰ نبوت اگر چہ محل نزاع ہے کیونکہ اس کے ماننے والے دوجماعتوں میں منقسم ہیں لاہوری گروپ اس کو نبی نہیں تسلیم کرتا اور نہ اس کادعویٰ نبوت مانتا ہے اس کے برعکس قادیانی گروپ اس کو نبی مانتا ہے لیکن ان کی تحقیق یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے دعوائے نبوت ۱۹۰۱ء میں کیا ہے اور مرزا قادیانی کی موت ۱۹۰۸ء میں ہوئی ۔ لہذا ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنی دلیل کیمطابق بھی جھوٹا ہے کیونکہ وہ ۲۳ سال کی مدت کے اندر ہیضے سے ہلاک ہوا ۔
جواب نمبر۴
بالفرض اگر یہ قانون عام بھی تسلیم کرلیاجائے تو سچے نبیوں کے متعلق ہو گا جھوٹے نبیوں کو مہلت مل سکتی ہے فرعون و نمرود جنہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا ان کو بھی مہلت ملی اور جب مرزا کا دیگر دلائل سے جھوٹا ہو ناثابت ہوگیا تو ان پر یہ قانون نہ لگے گا پہلے مرزا کے سچا نبی ہونے کا ثبوت پیش کرو۔
مرزا ئی عذر
مرزا پر جب علما ء نے اعتراض کیا کہ بعض ایسے مفتری بھی ہیں جو ۲۳ سال کے اندر اندر ہلاک نہ ہوئے جیسے اکبر بادشاہ اور روشن دین جالندھری وغیرہ ۔ اگر ۲۳ سال کے اندر ہلاک ہونا ضروری ہے تو یہ حضرات جنہوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے تھے ۲۳ سال کے اندر اندر ہلاک کیوں نہ ہوئے ؟
تو مرزا قادیانی نے اس کا یہ جواب دیا کہ جن جھوٹوں کے آپ نام پیش کرتے ہیں آپ ثابت کریں کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا ہو اور اپنے پر وحی نازل ہو نیکا بھی دعویٰ کیا ہو پھر وہ ۲۳ سال تک زندہ رہے ہوں ۔ کیونکہ ہماری تمام تر بحث وحی نبوت میں ہے ۔ مطلق دعوے میں نہیں ۔
’’ اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیاجاتا ہے اب اس کے مقابل یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا روشن دین جالندھری نے دعویٰ کیا یا کسی اور شخص نے دعویٰ کیا اور وہ ہلاک نہیں ہوئے یہ دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے بھلا اگریہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے اور ۲۳ برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کو خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہیے اور وہ الہام پیش کرنا چاہیئے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ میں خد اکا رسول ہوں اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہیے کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے ۔‘‘(ضمیمہ اربعین۳،۴ ص۱۱،روحانی خزائن ص۴۷۷ ج۱۷ ،ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۴ تا ۶ روحانی خزائن ص۴۲،۴۴ ج۱۷ )
الجواب
یہ عبارت ہمارے حق میں ہے کیوں کہ اگر تمام بحث وحی نبوت میں مانی جائے تو مرزا نے ۱۹۰۱ء مین دعویٰ کیا اور ۱۹۰۸ء میں مرگیا اور اس اپنی تحریر سے اس کے کذب پر مہر لگ گئی۔
الجھا ہے پاؤں یا ر کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیادلیل ثالثپیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ مہدی کی نشانی یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں رمضان المبارک کے مہینہ میں چاند اور سورج گرہن ہوگا یہ نشان مرزا قادیانی پر پورا ہوتا ہے جس سے ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی حدیث نبوی کے مطابق سچا مہدی ہے ۔
جواب
قادیانی جس روایت کو حدیث نبوی بنا کر پیش کرتے ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے ،پیغمبر خدا پر بہتان عظیم ہے اورصریح دھوکہ ہے ۔ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ اما م محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے (بلکہ یہ بھی ثابت نہیں کہ یہ امام باقر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے) جو دار قطنی نے اپنی کتا ب میں نقل کیا ہے ۔
اما م محمد باقر کا یہ قول سند کے لحاظ سے انتہائی ساقط اور مردود ہے یہ قول مع سند یوں ہے: ’’ عن عمر و بن شمر عن جابر عن محمد بن علی قال ان لمھدینا آیتین لم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض تنکسف القمر لاول لیلۃ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ ولم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض ‘‘ (دار قطنی ج۱ص۸۸)
اس عبارت میں پہلا راو ی عمر و بن شمر ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ ’’ لیس بشئی زائغ ، کذاب،رافضی ،یشتم الصحابۃ ویروی الموضوعات عن الثقات ، منکر الحدیث ،لایکتب حدیثہ ، متروک الحدیث۔‘‘علامہ شمس الدین ذہبی جو فن رجال کے امام ہیں وہ اس راوی کی مذمت میں نو جملے لکھتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس راوی کی روایت ہر گز قابل اعتبا رنہیں ۔
دوسرا راوی ہے جابر ، اس نام کے بہت سے راوی ہیں جن میں ایک جابر جعفی ہے جس کے متعلق اما م ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے جس قدر جھوٹے لوگ ملے ہیں جابرجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں ملا۔
تیسرا راوی محمد بن علی ہے اس نام کے بہت سے راوی گذرے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں کہ ا س محمد بن علی سے مراد محمد باقر ہی ہوں ۔ کیونکہ عمرو بن شمر کی عادت تھی ’’یروی الموضوعات عن الثقات‘‘ کہ وہ موضوع روایت ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے روایت کیا کرتا تھا ۔ جس روایت کی سند کا یہ حال ہووہ کیسے قابل حجت ہوسکتی ہے ۔
بفرض محال اگر اسے امام محمد باقر کا صحیح قول مان لیا جائے تو مرزا قادیانی پھر بھی جھوٹا ہے کیونکہ مرزا قادیانی کے زمانہ میں رمضان کی جن تاریخوں میں یہ گرہن لگا تھا وہ اس قول کے مطابق نہیں ہے ۔ مرزا قادیانی کے زمانہ میں رمضان کی تیرہ تاریخ کو چاند گرہن اور اٹھائیس تاریخ کو سورج گرہن لگا تھا ۔ حالانکہ اس قول کے مطابق مہدی کی نشانی یہ ہے کہ اس زمانہ میں چاند گرہن رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو اور سورج گرہن پندرہ تاریخ کولگے گا۔
مرزائی عذر
قانون قدرت یہ ہے کہ چاند گرہن ہمیشہ تیرہ ،چودہ ،پندرہ چاند کی تاریخوں میں سے کسی ایک تاریخ میں لگتا ہے اور سورج گرہن چاندکی ستائیس ، اٹھائیس اور انتیس میں سی کسی ایک تاریخ کولگتا ہے ۔ آج تک چاند کی پہلی تاریخ میں چاند گرہن اورپندرہ تاریخ میں سورج گرہن نہیں لگا۔ لہذا امام محمد باقر ؒکے قول میں لاول لیلۃ من رمضان سے مراد گرہن کی ان راتوں میں سے پہلی رات یعنی تیرھویں کی رات مراد ہے اور فی النصف منہ سے مراد سورج گرہن کی تین تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ یعنی اٹھائیس مراد ہے اور مرزا صاحب کے زمانہ میں رمضان کی تیرہ کو چاند گرہن اور اٹھائیس کو سورج گرہن لگا تو یہ گرہن امام محمد باقرؒ کے قول کے مطابق ہوگیا۔
جواب نمبر ۱
روایت کے الفاظ اس بے ہودہ تاویل کے ہر گز متحمل نہیں ہوسکتے ۔آپ نے فرمایا ’’اول لیلۃ من رمضان ‘‘ نہ کہ ’’ اول لیلۃ من لیالی الکسوف ‘‘ ۔تیرہ رمضان کو کوئی احمق بھی اول رمضان نہیں کہتا اور نہ ہی ’’ فی النصف منہ ‘‘ سے مراد اٹھائیس تاریخ مراد لی جاسکتی ہے۔ اٹھائیس تاریخ ،ستائیس،اٹھائیس ،انتیس تاریخوں میں درمیانی کہلا سکتی ہے ان تاریخوں کی نصف نہیں ہوسکتی ، اور نہ ہی کوئی احمق اٹھائیس تاریخ کو نصف رمضان کہہ سکتا ہے ۔
جواب نمبر۲
مرزا قادیانی کی یہ تاویل اس لئے بھی باطل ہے کہ اس قول میں دو مرتبہ یہ جملہ آیا ہے کہ ’’ لم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض ‘‘ یعنی ہمارے مہدی کے یہ دونشان ایسے ہوں گے کہ جب سے آسمان وزمین بنے ہیں تب سے ایسے نشان ظاہر نہیں ہوئے ہوں گے ۔
یہ قول اسی صور ت میں صحیح ہوسکتا ہے کہ جب اسے ظاہری الفاظ کے مطابق رکھا جائے ، اول لیلۃ سے یکم رمضان اور نصف منہ سے پندرہ رمضان مراد لی جائے کیونکہ جب سے آسمان وزمین بنے ہیں ان تاریخوں میں چاند اور سورج کا بھی گرہن نہیں لگا ۔ تیرہ رمضان کو چاند گرہن اور اٹھائیس رمضان کو سورج گرہن مرزا قادیانی سے قبل ہزاروں مرتبہ لگ چکا ہے مرزا سے قبل ۴۵ سال کے عرصہ میں تین مرتبہ رمضان کی انہی تاریخوں میں گرہن لگ چکا ہے ۔ مسٹر کیتھ کی کتاب ’’ ویوز آف دی گلوبز ‘‘ اور ’’ حدائق النجوم ‘‘ میں اٹھارہ سو ایک سے لے کر ۱۹۰۰ تک ایک صدی کے گرہنوں کی فہرست دی گئی ہے جس میں سے ۴۵ سالوں کی فہرست اس کتاب یعنی’’ شہادت آسمانی ‘‘ مولفہ مولا ناسید ابو احمد رحمانی میں صفحہ ۱۵ سے ۲۲ تک درج ہے ۔
٭ایک اہم قاعدہ ٭
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی ۲۷ ویں جلد میں گرہن کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سات سو تریسٹھ برس پہلے سے ۱۹۰۱ء تک کا تجربہ لکھا ہے جس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ہر ثابت شدہ یامانا ہوا گہن ۲۲۳ برس قبل اور بعد اس قسم کا گہن ہوتا ہے یعنی وہ مانا ہوا گہن جس وقت اور جس مہینہ میں جس طور کا ہوگا ۲۲۳ بر س سے قبل اور بعد بھی ان ہی خصوصیات کے ساتھ ویسا ہی دوسرا گہن ہوگا اب اس حساب کی روشنی میں آپ غور کریں جب ۱۲۶۷ھ سے ۱۳۱۲ھ تک چھیالیس بر س میں تین مرتبہ گرہنوں کا اجتماع رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس کو ہوا، اس قاعدے کو جاری کرکے دیکھا جائے کہ کس وقت میں گرہنوں کا اجتماع رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس کو ہوا ہے ۔ ذیل میں اس کا حساب پیش کرکے چند مدعیوں کے نام جو میرے علم میں ہیں پیش کئے جاتے ہیں اس واقع میں کتنے ہوئے ہیں اس سے زیادہ ماہرین تاریخ جان سکتے ہیں ۔
(۱) ۱۱۷ ھ مطابق ۷۳۶ء رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس تاریخوں کو گرہن لگا اور اس وقت ظریف نامی بادشاہ مدعی موجود تھا یہ صاحب شریعت نبی ہونے کا مدعی تھا ۱۲۶ھ میں مرا تو اس کا بیٹا صالح بادشاہ ہوا۔
(۲) ۳۴۶ھ مطابق ۹۵۹ء رمضان کی انہی تاریخوں میں گرہن لگااس وقت ابو منصور عیسیٰ مدعی نبوت موجود تھاتفصیل کیلئے کتاب ’’دوسری شہادت آسمانی ص ۸۳،۸۴‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔دوسرے نقشے کے مطابق پہلا گرہن ۱۶۱ھ مطابق ۷۷۹ء رمضان کی انہی تاریخوں میں لگا۔ اس وقت صالح نامی مدعی نبوت موجود تھا اور اس صالح کے زمانہ میں مرزا قادیانی کی طرح دو مرتبہ رمضان کی ان تاریخوں میں گرہن لگا ہے یعنی ۱۶۱ھ اور۱۶۲ھ کا ظہور ہندوستان میں نہ ہوا بلکہ امریکہ میں ہوا اس وقت مسٹر ’ڈوئی‘ وہاں مسیح موعود ہونے کا جھوٹا مدعی تھا۔
(۳) اس کے بعد ایک گرہن ۱۶۲ھ مطابق ۷۸۰ء میں لگا جس میں صالح مدعی تھا اور دوسراگرہن ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۸۹۵ء میں لگا جس میں مرزا قادیانی جھوٹا مدعی نبوت تھا۔
اس نقشہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۴۵ سال میں سورج گرہن اور چاند گرہن تین مرتبہ رمضان المبارک میں اکٹھے لگے ، تاریخیں حسب ذیل ہیں :
پہلا اجتماع ﴾ پہلا چاند گرہن ۱۳ رمضان ۱۲۶۷ ھ مطابق ۱۳ جولائی۱۸۵۱ء اورسورج گرہن ۲۸ جولائی ۱۸۵۱ء مطابق ۲۸ رمضان ۱۲۶۷ھ کو لگا۔
دوسرا اجتماع ﴾ چاند گرہن ۲۱ مارچ ۱۸۹۴ء مطابق۱۳ رمضان ۱۳۱۱ھ، سورج گرہن ۶ أپریل۱۸۹۴ء مطابق ۲۸ رمضان ۱۳۱۱ھ
تیسرااجتماع﴾ چاند گرہن ۱۱ مارچ ۱۸۹۵ء مطابق ۱۳ رمضان ۱۳۱۲ھ اور سورج گرہن ۲۶ مارچ ۱۸۹۵ء مطابق ۲۸ رمضان۱۳۱۲ھ۔
واضح رہے کہ ان ۴۵ سالوں میں صرف مرزا قادیانی ہی نہیں بلکہ اور بھی مسیح یا نبی ہونے کے مدعی موجود تھے جس کی تفصیل کتاب ’’ دوسری شہادت آسمانی ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
﴿خلاصہ بحث﴾
ہر ایک ذی علم سمجھتا ہے کہ اگر اس اجتماع کو نشان قرار دیا جائے گا تو صرف ایک نشان ثابت ہوگا اور حدیث میں نہایت صاف طور سے دونشانوں کی پیش گوئی کی گئی ہے اور ہر ایک نشان کو بے نظیر کہا ہے ۔ اس لئے اگر ۱۳ اور ۲۸ رمضان کو گہن ہونا نشان ہے تو حدیث کے بموجب ہر ایک گہن کونشان ہونا چاہیے اور ہر ایک کو بے نظیر ہونا چاہیے مگر مذکورہ فہرست سے ظاہر ہے کہ ۹۰ برس کے عرصہ میں چاند گرہن رمضان کی ۱۳ تاریخ کوپانچ مرتبہ یعنی ۱۲۶۳ھ،۱۲۶۷ھ،۱۲۹۱ھ،۱۳۱۰ھ،۱۳۱۱ھ،۱۳۱۲ھ ہوا ہے ۔ اور سورج گرہن اٹھائیس رمضان کو ۴۶ برس میں چھ مرتبہ ہو ا ہے ، اور ان دونوں کا اجتماع ان تاریخوں میں تین مرتبہ ہوا۔پھر کیا ایسے ہی گہن نشان و معجزہ ہو سکتے ہیں ؟ ذرا ہوش کرکے جواب دو۔ ( دوسری شہادت آسمانی ص۱۴ برحاشیہ ۲)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
از قلم غلام نبی قادری نوری
ریپلائی کیجیئے